ترک فاتح

ترکوں نے ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جو اب استانبول کہا جاتا ہے۔ یہ مسیحی  دنیا کے لیے سب سے زیادہ ہلا دینے  والا واقعہ تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک یونانی کتبہ میں اس کے بارے میں یہ الفاظ لکھے گئے کہ اس سے زیادہ ہولناک  واقعہ نہ کبھی ہوا اور نہ کبھی ہوگا :

There has never been and there never will be a more dreadful happening (p. 336).

حضرت عثمان کی خلافت( ۶۴۴ – ۶۵۶ء) کے زمانے     میں مسلمان ترکی میں داخل ہو گئے تھے۔ امیر معاویہ کے زمانے     میں انھوں نے ترک علاقہ میں مزید پیش قدمی کی۔ مگر اس کا دار السلطنت قسطنطنیہ انتہائی محفوظ جغرافیہ اور بے حد مضبوط قلعہ کی بنا پر اتنا مستحکم تھاکہ بار بار کوشش کے باوجود مسلمان اس کو مسخر نہ کر سکے۔ اس کی تسخیر ۸۰۰ سال بعد صرف ۱۴۵۳ میں ممکن ہو سکی۔

ترکی کا عثمانی سلطان محمد دوم جو محمد فاتح کے نام سے مشہور ہے ، وہ پہلا  شخص ہے جس نے اس طویل مہم کو کامیابی تک پہنچایا۔ اس نے اس مقصد کے لیے نہایت گہرا منصوبہ بنایا۔ سلطان محمد ۱۴۵۱ میں تخت پر بیٹھا جو اس وقت ادر نہ (Edirne) میں تھا۔ اس نے خاموش اور مسلسل عمل کے ذریعہ تمام ممکن سیاسی اورفوجی تدبیریں اس مقصد کے لیے مہیا کیں۔

۱۴۵۲ کا پورا سال اس نے باسفورس کے کنارے ایک نیا قلعہ تعمیر کرنے میں صرف کیا جہاں سے جنگی کارروائیوں کو منظم کیا جا سکے۔ یہ قلعہ بعد کو قلعہ رومیل (Rameli Hisari) کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے ۳۱ جنگی جہازوں کا ایک طاقتور بیڑا تیار کر وایا تاکہ سمندر کے راستہ سے موثر حملہ کیا جاسکے۔ اس نے ہنگری کے ایک استاد اربان (Urban) کو بلا کر اتنی بڑی توپ تیار کرائی جو اس وقت کے یورپ میں ایک نا در چیز تھی۔ یہ توپ سازی بے حداہم تھی ، کیونکہ اسی کے ذریعہ قسطنطنیہ کی مضبوط سنگی فصیل توڑی جاسکی۔

اس قسم کی مختلف ضروری تیاریوں کے علاوہ اس نے مزید یہ کیا کہ بوقت جنگ یونان اور ہنگری کو غیر جانب دار رکھنے کے لیے ان سے امن معاہدے کیے جن کی شرائط یک طرفہ طور پران کے مفاد میں تھیں :

To keep Venice and Hungary neutral, he signed' peace treaties favourable to them (11/860).

یہ عین وہی تدبیر تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدۂ حدیبیہ کے وقت اختیار فرمائی، اور جس  کے ذریعہ آپ نے مکہ کے قریش کو خیبر کے یہودیوں سے کاٹ دیا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت قریش اس کے پابند ہو گئے تھے کہ بوقتِ جنگ وہ یہود کی مدد نہیں کریں گے ۔

 ان تمام تیاریوں کے بعد سلطان محمد خاموش نہیں بیٹھا۔ بلکہ اس نے جنگی کارروائی کی کمان براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لی۔ پوری مہم کے دوران وہ بذات خود اس میں شریک رہا ۔قسطنطنیہ کی مہم کی تیاری اور اس کی کارروائیوں کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ اس کو تاریخ کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس زبر دست منصوبہ بندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ فتح ہو گیا۔ بازنطینی شہنشاہیت کا آخری تاجدار قسطنطین (Constantine XI) جنگ کرتا ہوا شہر کے درواز ے پر مارا گیا۔ ترکی میں مسلمانوں کی فتح تکمیل کو پہنچ گئی۔

اس فتح کے بعد ترکی کی راجدھانی ادر نہ (ایڈر یا نوبل) کے بجائے قسطنطنیہ قرار پائی اور آج تک وہ وہیں قائم ہے۔ اب اس کا نام استانبول ہے۔ قسطنطنیہ گیارہ سو سال سے زیادہ مدت تک مسیحی سلطنت کی راجدھانی تھا۔ اس کے بعد وہ مسلم سلطنت کی راجدھانی بنا۔ تقریباً  پانچ سو سال تک وہ عظیم عثمانی خلافت کی راجدھانی اور پورے عالم اسلام کی سیاسی طاقت کا مرکز رہا ہے۔ اس کی یہ حیثیت پہلی بار صرف جنگ ِعظیم اول (۱۸ - ۱۹۱۴) میں ختم ہوئی ۔

فتح ِمکہ (۶۳۰ء) سے لے کر فتح ِقسطنطنیہ (۱۴۵۳) تک اسلامی تاریخ کے تمام بڑے بڑے فاتحانہ واقعات گہری حکمت اور عظیم منصوبہ بندی کے ذریعہ انجام پائے ہیں۔ یہ صرف موجودہ زمانے     کی بات ہے کہ مسلمان تدبیر اور منصوبہ بندی کے بغیر محض جوش و خروش کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہی واحد وجہ ہے جس کی بنا پر بالا کوٹ مارچ (۱۸۳۱) سے لے کہ اجودھیا مارچ (۱۹۸۹) تک ان کے تمام اقدامات صرف ناکامی پر ختم ہو رہے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom