مہنگی قیمت
اامئی ۱۹۸۹ کو محمد نظیر امام الدین صاحب (۷۲ سال) سے ملاقات ہوئی ۔ وہ دھولیہ (مہاراشٹر )کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے دھولیہ میں ہونے والے ایک فرقہ وارانہ فساد کی تفصیل بتائی ۔ جو مارچ ۱۹۸۹ میں ہوا تھا ۔
دھولیہ میں مچھلی بازار کی مسجد کے سامنے پانی کانل لگا ہوا ہے ۔ یہ نل مسجد کا ہے، تاہم عام لوگ بھی اس سے پانی بھرتے ہیں۔ ۲۲ مارچ ۱۹۸۹ کو ہولی کا دن تھا۔ کچھ ہندو نوجوان ایک ٹینکر لے کر آئے اور اس نل سے پانی بھرنے لگے ۔ ایک ٹینکر وہ بھر کر لے گئے۔ اس کے بعد وہ دوسراٹینکر لے کر آئے اور دوبارہ اس نل سے پانی بھرنا شروع کیا۔ ان میں سے کسی نے مسجد کی دیواروں پر پانی پھینک دیا۔ وہاں ایک کھڑکی تھی جس سے پانی اندر تک چلا گیا۔ مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ ابھی تک تو آپ ٹینکر بھر رہےتھے ، اب آپ مسجد پر ہولی کا پانی بھی ڈال رہے ہیں۔
پہلے دونوں کے درمیان لفظی تکرار ہوئی۔ اس کے بعد ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ شور و غل سن کر دونوں فرقہ کے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو گئے۔ اب باقاعدہ لڑائی ہونے لگی۔ آخر میں پولیس آئی ۔ اس نے فائرنگ کی ۔ اس فائرنگ میں دو مسلمان مر گئے ۔ تقریباً دس مسلمان زخمی ہو کر اسپتال میں پہونچائےگئے ۔ ۸۰ مسلمانوں پر مقدمہ قائم ہوا جو اب تک جاری ہے ۔
میں نے محمد نظیر امام الدین صاحب سے کہا کہ ہولی کے دن ہندو لوگ اکثر شراب اور بھنگ کے نشے میں ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ان سے الجھنا ہر گز عقل مندی کی بات نہیں۔ مسلمانوں کو اگر مسجد پر پانی پھینکنے یا دو ٹینکر بھرنے پر اعتراض تھا تو وہ خوش تدبیری سے بھی اس کا حل نکال سکتے تھے ۔ ایسےموقع پر مشتعل ہو کر لڑائی چھیڑ دینا کسی طرح بھی دانش مندی نہیں ۔
میں نے کہا کہ مسلمانوں نے جو کچھ کیا وہ عقلمندی نہ تھی۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیےکہ وہ دو ٹینکر بھرے جانے پر صبر کر لیں تاکہ دو مسلمانوں کی جانیں بچ جائیں۔ وہ دیوار پر پانی یارنگ چھڑکنے کو برداشت کر لیں تاکہ سڑک پر ان کا خون نہ چھڑ کا جائے ۔ محمد نظیر امام الدین صاحب نے میری رائے سے پورا اتفاق کیا ۔