شکایت یا تدبیر
آپ راستہ چل رہے ہیں ۔ درمیان میں ایک جھاڑی کے کانٹے سے آپ کا دامن الجھ جاتا ہے۔ ایسے وقت میں آپ کیا کرتے ہیں۔ آپ "شکایت "کے بجائے ،"تدبیر" کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ جھاڑی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے ، بلکہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کون سی صورت اپنا ئیں جس سےمسئلہ حل ہو جائے ۔
عقل مند آدمی جانتا ہے کہ یہی طریقہ اس کو انسان کے معاملہ میں بھی اختیار کرنا ہے ۔ انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص سے ٹکراؤ ہو جاتا ہے۔ کسی سے کوئی تکلیف پہونچ جاتی ہے۔ کسی شخص کے متعلق ہمارا احساس ہوتا ہے کہ اس نے ہمارا حق ہم کو نہیں دیا۔ ایسے ہرموقع پر دوبارہ ہمیں شکایت کے بجائے تدبیر کا انداز اپنانا چاہیے ۔
زندگی کا ہر مسئلہ ایک چیلنج ہے نہ کہ ایک شخص کے اوپر دوسرے شخص کی زیادتی ۔ آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آئے ، اور آپ اس کو زیادتی سمجھیں تو اس سے شکایت اور احتجاج کا ذہن پیدا ہو گا۔ حتی کہ یہ ذہن آپ کو یہاں تک لے جاسکتا ہے کہ آپ مایوسی کا شکار ہو جائیں ۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ موجودہ ماحول میں آپ کے لیے کچھ کرنا ممکن ہی نہیں ۔ شکایت کا ذہن مایوسی تک لے جاتا ہے ، اور مایوسی کا ذہن نفسیاتی خودکشی تک ۔
اس کے برعکس اگر آپ کا یہ حال ہو کہ جب کوئی مسئلہ پیش آئے تو آپ اس کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھیں ، تو اس سے آپ کی سوئی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہوں گی۔ آپ کے اندر حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہو گا ۔ اول الذکر صورت میں آپ کا ذہن اگر منفی رخ پر چل رہا تھا تو اب آپ کا ذہن تمام تر مثبت رخ پر چل پڑے گا –––––– یہی ایک لفظ میں، موجودہ دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا راز ہے۔ اس دنیا میں جو شخص مسائل سے شکایت اور احتجاج کی غذا لے، اس کے لیے یہاں بربادی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں ۔ اس کے برعکس جس شخص کا حال یہ ہو کہ مسائل کا سامنا پیش آنے کے بعد اس کا ذہن تدبیر تلاش کرنے میں لگ جائے ، وہ لازماً کامیاب ہو کررہے گا، کیوں کہ اس دنیا میں ہر مسئلہ کا ایک حل ہے اور ہر مشکل کی ایک تدبیر۔