سفرنامہ را جستهان- ۲
اب وہ نوجوان اوزار سازی کا ماہر ہو گیا ہے اور اس کے ذریعہ اچھی کمائی کر رہا ہے۔
بہت سے مسلمان آپ کو اس قسم کی منت ماننے والے ملیں گے ۔ آپ ان کو منع کریں تو وہ کہیں گے کہ "ہمارا مقصد پورا ہوتا ہے تو ہم کیوں نہ کریں" ۔ مگر یہ صرف غلط فہمی ہے ۔ اصل یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں بے پناہ صلاحیت بھری ہوئی ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اس صلاحیت کو حرکت میں لایا جائے۔ اس کو حرکت میں لانے والی چیز یقین ہے ۔ نوجوان نے "اوزار " اپنی عقل سے بنایا۔ البتہ اس کی عقل کو متحرک کرنے کے لیے یقین اور حوصلہ کی طاقت درکار تھی ۔ جب اس نے تعزیہ پر چاندی کا اوزار چڑھانے کا ارادہ کیا تو اس نے اپنے اندر ایک نئی طاقت پیدا کر لی۔ اس کی نفسیات یہ ہوگئی کہ اب میں نے تعزیہ کو چڑھاوا دینے کی منت مان لی ہے ، اب تو میں اس کی مدد سے ضرور یہ کام کر لوں گا ۔ اس طرح چڑھاوے کی منت سے اس کو یقین اورحوصلہ کی طاقت مل گئی۔ اس کے ذریعہ اس نے اوز ار بنالیا ۔ اس یقین کا حقیقی سر چشمہ اللہ کا عقیدہ ہے ۔ مگر نادان آدمی دوسری چیزوں پر عقیدہ کو اپنے یقین کا سرچشمہ بنا لیتا ہے۔
عبد القیوم صاحب (۳۸ سال) پالی کے رہنے والے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ پالی میں اتناتعصب ہے کہ اگر سڑک پر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو لوگ سب سے پہلے یہ پوچھتے ہیں کہ ایکسیڈنٹ کرنے والا کون ہے۔ چوڑی بازار میں آگ لگ گئی تو پوچھنے والے صرف یہ پوچھتے تھے کہ آگ کس نے لگائی۔ لوگوں کو آگ بجھانے سے دل چسپی نہیں ، بلکہ یہ جاننے سے دل چسپی ہے کہ آگ لگانے والا کون ہے۔
حالت یہ ہے کہ پوچھنے والے کو اگر یہ بتایا جائے کہ آگ لگانے والا یا ایکسیڈنٹ کرنے والا مسلمان ہے تو ہند و طوفان کھڑا کر دیں گے ۔ اور اگر یہ بتایا جائے کہ آگ لگانے والا یا اکسیڈنٹ کرنے والا ہندو ہے تو مسلمان بپھر کر ہنگامہ کرنے لگیں گے۔
عبد القیوم صاحب پالی میں پینٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کام ۹۰ فی صد ہندوؤں میں ہوتا ہے۔ وہ سچائی کے ساتھ اور محنت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ چنانچہ تمام ہندو ان کی عزت کرتےہیں۔ ہندوؤں کو ان پر اتنا اعتماد ہو گیا ہےکہ گھر کی کنجی انھیں دے کر باہر چلے جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ۱۹۸۷ میں پالی میں فساد ہو گیا۔ بہت سی دکانیں جلا دی گئیں۔ شہرمیں کرفیو لگ گیا ۔ اس وقت وہ ہندو محلہ میں تھے ۔ ہندوؤں نے ان کی پوری حفاظت کی ۔ کھانے پینے کی کوئی تکلیف نہیں ہونے دی۔ "اصل چیزا اپنا اخلاق ہے "۔ عبد القیوم صاحب نے اپنے سادہ لفظوں میں کہا "ہم اپنا اخلاق اور اپنی بول بات ٹھیک رکھیں تو وہ ہمارا پورا احترام کریں گے"۔
ایک بزرگ نے ایک صاحب کا ذکر کیا جنہوں نے ہمارے مشن کے ساتھ غصب اور خیانت کا معاملہ کیا ہے اور کچھ لوگ " بغض معاویہ کی نفسیات کے تحت ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تَحۡسَبُونَهُۥ هَيِّنٗا وَهُوَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِيمٞ کا معاملہ ہے۔ قیامت میں یہ لوگ اپنے جرم پر اتنا روئیں گے کہ ان کے آنسوؤں کا سیلاب ہی ان کو غرق کرنے کے لیے کافی ہو جائے گا۔
راجستھان کا ایک قصبہ مکرانہ ہے جو سنگ مرمر کے لیے مشہور ہے۔ مکرانہ جانے کا اتفاق تو نہیں ہوا۔ البتہ یہاں کے بعض اصحاب سے ملاقات ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی بار ۱۶۰۶ میں یہاں سنگ مرمر کی موجودگی کا پتہ چلا۔ ہندستان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد مقام ہے۔ مسٹر جی ایل کٹا ریا ( اسسٹنٹ مائننگ انجنیئر، مکرانہ )کے بیان کے مطابق ، یہاں تقریباً ۵۰ ملین ٹن سنگ مرمر کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ذخائر ۵۰ فٹ نیچے شروع ہو جاتے ہیں اور ۲۵۰ فٹ تک جاتے ہیں ۔ یہ ذخائر تقریباً ۲۵ کلو میٹر کے رقبہ میں زیر زمین پھیلے ہوئے ہیں۔ اس سے ریاست کے خزانہ کو سالانہ چار کرور روپیہ بطور ٹیکس وصول ہوتا ہے۔ شاہجہاں نے مکرانہ کے پتھروں ہی سے آگرہ کا تاج محل بنوایا تھا۔ اسی وقت سےمکرانہ کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اس وقت مکرانہ میں ۶۵۰ کا نیں ہیں۔
پنجاب اور یوپی اگر درختوں کے باغ ہیں تو راجستھان طرح طرح کے پتھروں کا باغ ہے۔ خدا کے جو کلمات درخت کے نازک پتوں پر لکھے ہوئے نظر آتے ہیں، وہی کلمات پتھروں کی دنیا میں سنگی تحریروں کی صورت میں لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے مکرانہ کے ایک صاحب سے پوچھا کہ کیا مکرانہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے پتھروں کے ورق پر لکھی ہوئی خدا کی کتاب پڑھی ہو ۔ اس سوال کو سن کر وہ میری طرف اس طرح دیکھنے لگے جیسے میں نے روسی یا جاپانی زبان میں ان سے کوئی سوال کر دیا ہو۔
۳۰ جولائی کو دوپہر بعد شیو گنج سے سرو ہی کے لیے روانہ ہوا۔ سرو ہی ایک پرسکون اورصحت بخش مقام ہے۔ اس سفر میں حاجی عبد الکریم صاحب ، ظفر مسعود رضوی صاحب اور کچھ دوسرےلوگ ساتھ تھے ۔
ظفر مسعود رضوی صاحب (۴۸ سال) سرو ہی میں رہتے ہیں۔ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ ان کے یہاں الرسالہ کے کیسٹ بھی موجود ہیں۔ وہ اوپر کی منزل میں رہتے ہیں۔ ایک روزان کے یہاں" تعمیر ملت " نام کا کیسٹ بج رہا تھا۔ ان کے پڑوس میں مسٹر کرشن کما رما تھر نیچے کے حصہ میں رہتے ہیں۔ مسٹرما تھر کے کان میں اس کی آواز گئی تو انھیں دل چسپی ہوگئی۔ انھوں نے کیسٹ کو مانگ کر دوبارہ اس کو مکمل طور پر سنا۔ ۔ اب ان کی دل چسپی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہر مہینہ الرسالہ (اردو) کوپڑھوا کر سنتے ہیں۔ اسی طرح یہاں کے کئی اور ہندو بھی۔
سرو ہی میں ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ میں نے مسلمانوں کے بعض اجتماعات میں شرکت کی ہے ۔ وہ لوگ اجتماع کے آخر میں لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ مگر ساری دعا صرف مسلمانوں کے لیے ہوتی ہے۔ ملک کی خوش حالی یا قوم کی ترقی کے لیے کوئی دعا نہیں کی جاتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کو صرف اپنے گروہ سے دل چسپی ہے۔ ملک و قوم سے آپ لوگوں کو کوئی دل چسپی نہیں۔یہ تنقید میرے نزدیک بجا ہے۔ مسلمانوں کو اس پر دھیان دینا چاہیے ۔
یہاں ایک معروف شخص ماسٹر من موہن لال ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سرو ہی ضلع (اور اسی طرح دوسرے مقامات پر) ملی جلی کمیٹی بنائی جائے۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوں ۔ اگر کہیں مسلمان زیادتی کرتے ہیں تو ان کے خلاف کمیٹی کے مسلم ممبران آواز اٹھائیں۔ اور اگر کہیں ہندوزیادتی کرتے ہیں تو کمیٹی کے ہند و ممبران اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔
موجودہ حالت یہ ہے کہ ہندو بولنے والے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف بولتے ہیں ، اسی طرح مسلمان بولنے والے ہمیشہ ہندوؤں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ۔ یہ بالکل بے فائدہ ہے۔ اگر ماسٹر من موہن لال کی تجویز پر عمل کیا جائے تو یقیناً فساد کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ان میں بہت کمی آجائے گی۔
سروہی سے آبو روڈ جاتے ہوئے پنڈو اڑہ ملتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اگست ۱۹۸۷ میں فرقہ وارانہ فسانہ ہوا تھا۔ یہاں ایک مسلمان کی کرانہ کی دکان ہے۔ یہاں سے مزدور طبقہ کے ایک ہندو نے کچھ سامان ادھار خریدا۔ بعد کو ایک روزمسلم دکان دار نے مذکورہ ہندو سے پیسہ کا تقاضا کیا۔ ہندو نے پیسہ نہیں دیا تو دکان دار نے اس کی سائیکل رکھ لی۔ ہندو نے مقامی آر ایس ایس والے سے شکایت کی۔ وہ آئے اور دکان دار سے کہا سنا ۔ دکاندار نے سائیکل واپس کر دی۔
بظا ہر بات ختم ہو گئی۔ مگر ایک مسلم نوجوان جو مذکورہ دکاندار کا دوست تھا۔ اس کو واقعہ معلوم ہو ا تو اس نے مذکورہ ہندو کو بازار میں پکڑا اور اس سے تکرار شروع کی۔ اس دوران مسلم نوجوان نے ایک لکڑی لے کر اس کو مار دیا۔ اب ہندوؤں نے ہندو مزدور کی طرفداری کرتے ہوئے مسلم نو جو ان کو مار ناشروع کیا۔ یہاں تک کہ سخت زخمی ہو کر وہ مسلمان مرگیا۔ تاہم بات اس کےبعد زیادہ آگے نہیں بڑھی۔ ایڈ منسٹریشن نے جلد ہی حالات پر قابو پالیا۔
اسی راستہ میں دوسرا قصبہ سروپ گنج آتا ہے۔ یہاں فروری ۱۹۸۹ میں فساد ہو اتھا۔ہیڈ گواڑجنم شتابدی منائی جارہی تھی۔ اس موقع پر آدی واسی تقریباً ۵ ہزار کی تعداد میں جمع ہوگئے۔ اس سلسلہ میں ایک جلوس نکالا جانا تھا۔ جلوس کا راستہ ایک مسجد سے گزرتا تھا۔ مسلمانوں کو اس پر اعتراض ہوا۔ اب تناؤ بڑھا۔ انتظامی افسران نے چند ہندوؤں اور چند مسلمانوں کو بلا کر گفتگو کی ۔ ہندوؤں نے کہا کہ اگر آپ ہمارے جلوس کو اپنے علاقہ سے گزرنے سے روکیں گے تو ہم بھی آپ کا کوئی جلوس اپنے علاقہ سے گزرنے نہیں دیں گے۔ آخر کار مسلمان راضی ہو گئے اور یہ طےہوگیا کہ ہندوؤں کا جلوس مسجد کی طرف سے گزر جائے۔
مگر مسلم صاحبان نے واپس آکر اس سمجھوتہ کی خبر فوراً مسلمانوں کو نہ دی ۔ اور نہ وہ جلوس کے وقت مسجد کے پاس موجود رہے کہ اعلان کر کے مسلمانوں کو اس کی بابت بتائیں ۔ چنانچہ عام مسلمان سابقہ ذہن میں رہے ۔ جلوس جب مسجد کے سامنے سے گزرا تو کسی مسلمان یا چند مسلمانوں نےجوش میں اگر جلوس پر پتھر پھینک دیا۔ اس پر فساد بھڑک اٹھا۔ جانی نقصان تو کوئی نہیں ہوا۔مگر مسلمانوں کی تقریباً ۵۰ لاکھ روپیہ کی جائداد جلادی گئی۔
آبو روڈ کی ایک دیوار پر ہندی میں لکھا ہوا تھا "درگھٹنا چالک کے لیے کلنک ہے" ۔ یعنی حادثہ ڈرائیور کے لیے داغ ہے۔ یہ بات جس طرح ایک گاڑی کے ڈرائیور کے لیے صحیح ہے، اسی طرح وہ قوم کے لیڈر کے لیے بھی صحیح ہے۔ لیڈر اپنی قوم کو ایک راستہ پر دوڑائے اور قوم اس پر چل کر بر بادی کے گڑھے میں جاگرے ، تو حساس لیڈر کے لیے ایسا کوئی واقعہ موت کا حکم رکھتا ہے۔ بے حس لیڈر ایسے موقع پر دوسروں کو بربادی کا ذمہ دار ٹھہر کر مطمئن ہو جائے گا۔ مگر حساس لیڈر کے لیے وہ ایسا حادثہ ہو گا کہ اس کی زبان بند ہو کر رہ جائے۔
راستہ میں بناس ندی پر ایک قدیم پُل ہے ۔ اس کا نام رجواڑہ پل ہے۔ یہ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے کا بنا ہوا ہے ۔ آج بھی وہ پوری طرح مضبوط ہے۔ مگر چوڑائی میں اتنا کم ہے کہ بیک وقت اس سے صرف ایک بڑی گاڑی گزرسکتی ہے ۔ ڈیڑھ سو سال پہلے کے انسان کو "مضبوطی "کی اہمیت معلوم تھی ، مگر اس کو "چوڑائی "کی اہمیت معلوم نہ تھی۔ یہ انسانی عقل کی محدودیت ہے۔ وہ صرف حال کو جان سکتا ہے ، مستقبل کو یقینی صورت میں جاننا اس کے لیے ممکن نہیں۔
آبو روڈ سے ماؤنٹ آبو کا فاصلہ تقریباً ۲۸ کلو میٹر ہے۔ یہ پور اراستہ چکر دارپہاڑی سڑک پر طے ہوتا ہے۔ سڑک کے دونوں طرف اونچے پہاڑ اور گہری کھائی کے مناظر تھے ۔سر سبز درختوں سے پورا ماحول ڈھکا ہوا تھا۔ یہ ۳۰ جولائی کی شام کا وقت تھا ۔ ہوائیں تیز چل رہی تھیں۔ گاڑی کی کھڑکیاں بند کر لی گئیں۔ اب شیشہ کے باہر درخت زور زور سے ہلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ شاخیں ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی تھیں ۔ کہیں کہیں پورے درخت گرے ہوئے نظر آئے ۔ مگر ہم گاڑی کے اندر شیشہ کے پیچھے بالکل محفوظ حالت میں بیٹھے ہوئے چلتے رہے ۔ اللہ تعالٰی نے اس دنیا میں اگر طوفان رکھا ہے تو اسی کے ساتھ اس نے یہاں ایسے اسباب بھی رکھ دیے ہیں کہ آدمی خارجی طوفان سے محفوظ رہ کر اپنا سفر طے کر سکے۔
۳۰ جولائی کی شام کو ہم لوگ ماونٹ آبو پہنچے ۔ ماؤنٹ آبو ایک پہاڑی مقام ہے جو ضلع سرو ہی (راجستھان )میں واقع ہے۔ اس کا تعلق اراولی سلسلۂ کوہ سے ہے۔ ماونٹ آبو میں کثرت سے جین مندر اور جین مذہب کی مقدس یادگاریں ہیں ۔ یہاں پچھلے دو ہزار سال سے زائرین آتے رہے ہیں ۔ ہندستان کے سنسکرت رزمیہ مہا بھارت میں بھی اس کا تذکرہ آر بودہ کے نام سے موجود ہے جس کے معنی مقام دانش کے ہوتے ہیں۔
ماونٹ آبو ایک مشہور پہاڑی تفریح گاہ ہے۔ یہاں ایک خاص طرح کا جین مندر ہےجو پورا سفید سنگ مرمر کا بنا ہو اہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مندر ۱۲۰۰ء کے لگ بھگ بنایا گیا تھا۔ ماؤنٹ آبو کی سیاسی اہمیت اس وقت ہوئی جب انگریزی حکومت کے زمانے میں "برٹش راجپوتانہ اسٹیٹس ایجنسی " یہاں قائم کی گئی۔ اس کی آبادی تقریباً پندرہ ہزار ہے۔
ہندستان میں جو مختلف مذہبی اور روحانی تنظیمیں ہیں، ان میں سے ایک تنظیم کا نام بر ھما کماری ہے ۔ اس کے بانی دادا لیکھ راج (وفات ۱۹۶۹) ہیں۔ وہ حیدر آباد (سندھ) میں ہیرے کے تاجر تھے۔ ان کے پیروؤں کا عقیدہ ہے کہ شیو دیوتا داد الیکھ راج کے اندر حلول کر گیا۔ اس کے بعد انھوں نے تجارت چھوڑ دی اور مذہبی اور روحانی تبلیغ میں لگ گئے۔
بر ہما کماری مشن کا ہیڈ کوارٹر ماونٹ آبو کی چوٹیوں پر ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس کی ۸۰۰ اشاخیں قائم ہیں ۔ یہ ایشیا کی واحد مذہبی تنظیم ہے جس کو اقوام متحدہ میں مشاورتی درجہ (Consultative Status) دیا گیا ہے۔ برہما کماری مشن سے وابستہ افراد تجرد کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ گوشت نہیں کھاتے۔ شراب اور دوسری نشہ کی چیزوں سے مکمل پرہیزکرتے ہیں۔
اس تنظیم کے تصویری میوزیم ۵۲ ملکوں میں قائم ہیں جن کو وہ لوگ خدائی میوزیم (Godly Museum) کہتے ہیں ۔ یہاں ہر روز صبح کو راجا یوگا کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ لوگ شیو کو پوجتے ہیں۔ ناخوش گوار موسم کے باوجود یہاں کافی چہل پہل نظر آئی ۔ ان کے نظریات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے میں نے ان کے اندر ایک زندگی دیکھی جو عام طور پر ہمارے اداروں میں نظر نہیں آتی۔
اس ہیڈ کوارٹر کے تحت ایک اسپر چول یونیورسٹی ہے جس میں دو ہزار طالب علم رہتے ہیں۔روز انہ تقریباً ایک ہزار آدمی اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ وسیع پیمانہ پر لوگوں کو مفت کھانا کھلانے کا انتظام ہے۔ صاف ستھرے ہالوں میں نہایت صاف ستھرا ویجیٹرین کھانا کھلایا جاتا ہے۔ وسیع رقبہ میں اس کے مختلف شعبے نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ کارکنوں کی ایک پوری فوج پورے نشاط اور انہماک کے ساتھ ہر وقت اپنے کاموں میں مصروف رہتی ہے۔ مگر سب کے سب بے معاوضہ ہیں۔ تمام کام مشن کی عورتیں اور مرد رضا کارانہ طور پر انجام دیتے ہیں جو تقریباً سب کے سب تعلیم یافتہ ہیں۔ اور اکثر خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۳۱، جولائی کو جب میں نے اس مشن کو دیکھا ، اس وقت میرے ساتھ چار آدمی اور بھی تھے۔
بر ہما کماری مشن کے سنٹر میں میں نے جو کچھ دیکھا اور وہاں کے ذمہ داروں سے جو باتیں ہوئیں ، اس کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ کسی وقت اس کو تحریر کیا جائے گا۔ میرا احساس یہ ہے کہ ہندستان کی کئی مذہبی تحریکیں ، جن میں برہما کماری اور سکھ دھرم شامل ہیں ، ہندو ازم اور اسلام کے بیچ میں ایک درمیانی راہ نکالنے کی کوشش تھی۔ مگر اس کا نتیجہ صرف یہ ہوا کہ ان کو نہ ہندو ازم ملا اور نہ اسلام ۔
ٹرین میں ادھیڑ عمر کا ایک ہندو جوڑ اتھا۔ بظاہر وہ خوش حال گھرانے کے افراد تھے ۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ بر ہما کماری سے تعلق رکھتے ہیں اور ماونٹ آ بو جارہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ شادی کے بعد وہ لوگ بر ہما کماری تحریک سے متاثر ہوئے۔ چنانچہ ۲۵ سال سے وہ بہن بھائی کی طرح رہ رہے ہیں ۔ انھوں نے پھر کبھی ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا۔
عورت اور مرد کے درمیان ازدواجی تعلق فطرت کے عین مطابق ہے اور اس کے مقابلہ میں تجر د فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو اسلام میں غلو کہا گیا ہے۔ مذہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان فطری اور معتدل قسم کی مذہبی زندگی کی طرف کم رغبت کرتا ہے۔ اس کے بجائے غلو والی مذہبی زندگی میں اس کے لیے بڑی کشش ہے ۔ جو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے وہ بھی کم از کم ذہنی طور پر اس کو بڑی چیز سمجھتے ہیں ۔
اس کی وجہ حقیقۃ ً مذہب پسندی نہیں بلکہ ظاہر پسندی ہے۔ غلو ہمیشہ ان چیزوں میں ہوتا ہے جو دکھائی دیتی ہیں۔ ظاہری اور مقداری چیزوں میں اضافہ ہی کا نام غلو ہے۔ خود مسلمانوں میں فضائل کی موضوع روایتیں اور بزرگوں کے بارے میں فرضی قصے تمام ترکمیاتی چیزوں میں مبالغہ سے تعلق رکھتی ہیں نہ کہ کیفیت والی چیزوں میں مبالغہ سے ۔حقیقت یہ ہے کہ "فارم" کو اہمیت دینےکا نام غلو ہے ، اور "اسپرٹ" کو اہمیت دینے کا نام کی مذہبیت۔
۳۱ جولائی کو ۱۰ بجے ماونٹ آبو کی نکی جھیل دیکھی۔ پہاڑ کے اوپر پانی کے بڑے بڑے ذخیرےجو اکثر بلندیوں پر دکھائی دیتے ہیں، وہ قدرت کا حیرت ناک معجزہ ہیں۔ اس جھیل کے اتّر سمت میں ایک پختہ قبر ہے۔ یہ قبر احسان علی صاحب کی ہے۔ وہ لکھنؤ کے رہنے والے تھے۔ ۱۸۵۷ کے" غدر "میں وہ یہاں آئے۔ اس وقت راجپوتانہ کا انگریز ریزیڈنٹ سر ہنری لارنس یہاں رہتا تھا۔ احسان علی صاحب نے لارنس کے لڑکے پر گولی چلا دی۔ مگر گولی اس کے پاؤں میں لگی ۔ وہ بچ گیا۔
احسان علی صاحب ایک جھاڑی میں چھپے ہوئے پکڑ لیے گئے ۔ انھیں گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد ان کی لاش شاہراہ عام پر لٹکا دی گئی ۔ وہ تین روز تک وہاں لٹکی رہی۔ اس کے بعد تدفین عمل میں آئی۔ یہ قبر آج تک جھیل کے کنارے موجود ہے اور اس پر "احسان علی شاہ" کا کتبہ لگا ہوا ہے۔ دین ِوطنیت کی اصطلاح میں وہ ایک فریڈم فائٹر تھے۔ میرے نزدیک زیادہ بہتر یہ ہو گا ہ ان کی قبر پر فریڈم فائٹر کا کتبہ لگایا جائے نہ کہ احسان علی شاہ کا۔
ماؤنٹ آبو پر مجھے ایک بلڈنگ میں لے جایا گیا۔ یہاں ۱۹۸۵ سے "اقبال ہوسٹل "قائم ہے۔ اس میں زیر تعلیم بچوں کے لیے بورڈنگ اور لا جنگ کا انتظام ہے ۔ یہ بچے انگریزی اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور یہاں قیام کرتے ہیں۔ انگریزی تعلیم کے ساتھ ان کے لیے قرآن( ناظرہ )پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ اس کے ساتھ اردو بھی پڑھانا چاہیے کیونکہ موجودہ حالات میں ان کو دین سے باخبر رکھنے کے لیے دوسرا کوئی ذریعہ نہیں۔
میں نے ایک گجراتی طالب علم اسماعیل گھانچی(۱۴ سال) سے بات کی۔ وہ ذہین نظر آیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کس کلاس میں پڑھتے ہیں۔ اس نے کہا آٹھویں کلاس میں۔ اپنے اسکول کا نام اس نے روٹری اسکول (Rotary Integrated School) بتایا۔ میں نے کہا کہ اس بات کوانگریزی میں کہئے کہ میں آٹھویں درجہ میں پڑھتا ہوں۔ اس نے جواب دیا:
I am studying in 8th standard.
اسی قسم کا ایک واقعہ کسی قدر مختلف شکل میں شیو گنج میں پیش آیا۔ وہاں میری ملاقات ایک مسلمان طالب علم سے ہوئی جو "میونسپل اسکول" میں پڑھتا تھا۔ اس نے بتا یاکہ وہ آٹھویں کلاس کا طالب علم ہے۔ میں نے کہا کہ اس بات کو انگریزی میں کہئے کہ میں آٹھویں کلاس میں پڑھتا ہوں۔ دیر تک سوچنے کے بعد بچے نے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے :
I am 8th class reading.
کتنا فرق ہے ایک اسکول میں اور دوسرے اسکول میں۔
محمد افضل صاحب (۴۸ سال)ماونٹ آبو میں انگریزی اسکولوں کے بچوں کا ہوسٹل چلاتے ہیں۔ ان کے کئی اور بھی کام ہیں۔ یہاں پہلی بار ان سے ملاقات اور واقفیت ہوئی۔ وہ نہایت سمجھدار اور بااثر آدمی ہیں۔ معاملات کی تدبیر کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا : اگر ہم کسی سے نفرت نہ کریں تو کوئی ہم سے بھی نفرت نہیں کرے گا۔ اس علاقہ کے بعض اختلافی معاملات ان کے سامنے لائے گئے اور انھوں نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ان کو ختم کر ادیا۔ انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ایسا معاملہ نہیں جس کو خوش تدبیری سے حل نہ کیا جاسکے۔
محمد افضل صاحب سے ملاقات کے بعد میری ایک تجویز دوبارہ مجھے یاد آگئی جو برسوں سے میرے ذہن میں ہے۔ یہ تجویز قرآن (النساء ۸۳) پر غور کرنے سے سمجھ میں آئی ہے ۔ وہ یہ کہ فساد کے معاملہ میں مسلمان ہر جگہ کچھ صاحبِ فہم اور صاحب اثر افراد کو اپنا ذمہ دار بنا ئیں۔ جب بھی کسی مقام پر دونوں فرقوں میں تناؤ اور اختلاف کی صورت پیدا ہو اور فساد کا اندیشہ ہو تو خود لڑائی چھیڑنے کے بجائے وہ صرف یہ کریں کہ ملاقات یا ٹیلیفون کے ذریعہ فوری طور پر ان ذمہ دار افراد کو اس کی اطلاع دیں ۔ اس کے بعد خود کچھ نہ کریں بلکہ معاملہ کو ان کے حوالے کرنے کے بعد وہ مکمل طور پر خاموش ہو جائیں۔ مسلمان اگر ایسا کریں تو یقینی ہے کہ یہ افراد معاملہ کو ختم کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو جائیں گے۔ اس ملک سے فساد کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اس سفر میں ایک اور تجربہ ہوا۔ راجستھان میں اگر چہ جگہ جگہ کچھ لوگ فساد کے اسباب پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور یہ چاہتے ہیں کہ اس امن پسند ریاست میں ہند ومسلم نفرت کا ماحول پیدا ہو جائے ۔ مگر میں نے اپنے سفر کے دوران کئی ایسی مثالیں دیکھیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان اگر با ہوش ہو جائیں تو فرقہ پرست عناصر کی ہر تخریبی کوشش یقینی طور پر ناکام ثابت ہوگی۔
مثلاً فالنا میں ایک مسلمان ہیں جو ٹیلی ویژن کا کچھ سامان بناتے ہیں۔ ان کا سامان دوسرے بنانے والوں کے مقابلہ میں نمایاں طور پر بہتر ہوتا ہے۔ چنانچہ دوسروں کے مقابلہ میں وہ اپنی مصنوعات کی قیمت بھی زیادہ لیتے ہیں۔ مگر حال یہ ہے کہ ان کے یہاں خریداروں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ اور یہ تقریباً سب کے سب ہندو ہوتے ہیں ۔ ہندوؤں کو ان سے کوئی شکایت نہیں۔
اسی طرح آبو روڈ میں ایک مسلمان ہیں جن کے یہاں سلائی (ٹیلرنگ) کا کام ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف اچھا کام کر کے دیتے ہیں بلکہ سلوک کے اعتبار سے بھی نہایت خوش اخلاق آدمی ہیں۔ ان کے گاہکوں میں ۹۵ فیصد تعداد ہندوؤں کی ہوتی ہے۔ مقامی ہندو عام طور پر ان کے ساتھ عزت اور محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
پالی میں چند مسلمان ہیں جو گھروں میں پینٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ یہ سیدھے سادے لوگ ہیں اور اپنا کام ہمیشہ محنت اور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ ان کا کام بھی زیادہ تر ہندوؤں کے مکانات میں ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ ان کی بہت زیادہ قدر کرتے ہیں۔
اس طرح کی انفرادی مثالیں ہر شہر اور ہر بستی میں پائی جاتی ہیں۔ ہر جگہ ایسا ہے کہ کچھ مسلمان اپنے کام اور اپنے اخلاق کی وجہ سے ہندؤوں کے درمیان با عزت بنے ہوئے ہیں۔ یہ مثالیں واقعات کی زبان میں بتاتی ہیں کہ فرقہ وارانہ مسئلہ کا حل کیا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان اچھے عمل اور اچھے اخلاق والے انسان بن جائیں۔ اس کے بعد ان کے تمام مسائل اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔ یہ طریقہ ان کی اپنی ذات کے لیے بھی مفید ہے اور پوری قوم کے لیے بھی۔
یہ ماؤنٹ آبو کے ہوٹل سن راک (Sun Rock) کا کمرہ ہے۔ میں سطحِ سمندر سے ۴ ہزار فٹ کی بلندی پر بیٹھا ہوں۔ تیز ہوا چل رہی ہے شیشہ کے اُس پار تمام درخت ہلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سورج گہرے بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔
یہاں دہلی ، بمبئی اور کلکتہ والی کثیف ہوا نہیں ۔ پورا ماحول اس برائی سے خالی ہے جس کو فضائی کثافت (Air Pollution) کہا جاتا ہے۔ تازہ اور صاف ہوا کے جھونکے چاروں طرف آکسیجن بکھیر رہے ہیں۔ مگر ہوٹل کے اندر بند کمرے کی ہوا با ہر کی ہوا سے مختلف ہے ۔ یہاں وہ فرحت بخش ہوا نہیں جو باہر افراط کے ساتھ موجود ہے۔
ہوٹل کے بند کمرے میں سکون ہے مگر فرحت بخش ہوا کے جھونکے نہیں۔ با ہر فرحت بخش ہو ا کے جھونکے ہیں مگر وہاں سکون کے لمحات نہیں ۔ یہی اس دنیا میں زندگی کا معاملہ ہے۔ اگر آپ تازہ ہوا لینا چاہتے ہیں تو آپ کو طوفان کی زد میں آنا پڑے گا۔ اور اگر آپ طوفان سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو یہ صرف اس قیمت پر ہو گا کہ آپ تازہ ہوا میں سانس لینے سے محروم رہ جائیں۔
ماؤنٹ آبو کی اہمیت کو انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال پہلے سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ ۱۸۳۶ میں راجپوتانہ کے انگریز ریزیڈنٹ نے ماونٹ آبو کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا۔ اس کے بعد اس علاقے کے تمام را جاؤں نے یہاں اپنی اپنی کو ٹھیاں بنانی شروع کر دیں ۔
مگر مسلمان دور جدید سے عدم ِواقفیت کی بنا پر" ماؤنٹ آبو" کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ یہاں مجھے بتایا گیا کہ ماونٹ آبو کی بیشتر زمینیں مسلمانوں کی تھیں۔ مگر مسلمانوں نے نہایت معمولی قیمتوں پر اپنی زمینیں غیر مسلموں کے ہاتھ فروخت کر دیں ۔ میں نے بعض زمینیں دیکھیں جو مسلمانوں نے "ہزاروں" روپیہ ہیں بیچی تھیں وہ آج "کروروں" روپیہ کی ملکیت ہیں۔ کئی مسلمانوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی فضول خرچی کی بنا پر قرضوں میں پھنس گئے اور قرض اتارنے کی خاطر قیمتی زمینوں کو نہایت معمولی دام میں فروخت کر دیا۔
ایک صاحب نے کہا کہ راجستھان کے شہروں اور قصبوں کی دیواروں پر آجکل مسلم مخالف نعرے لکھے جارہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کو مسلم مخالف نعرے دکھائی دیتے ہیں مگر مجھےتو ہر جگہ یہ لکھا ہوا نظر آتا ہے:
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔
میں ۳۰ جولائی کی شام کو ماؤنٹ آبو پہنچا تو ایک شخص نے کہا کہ یہاں دیکھنے کی سب سے زیادہ خاص تاریخی چیز دیل واڑہ مندر ہے۔ اس کے کاریگروں نے "پتھر کو کاغذ بنا دیا"۔
۳۱ جولائی کو دیل واڑہ مندر دیکھا۔ یہ جینی فرقہ کا مندر ہے۔ ۱۰۳۱ ء میں راجہ بھیم دیو( گجرات) کے وزیر اور کمانڈرویمل شاہ نے اس کو مکمل کرایا۔ اس کی تعمیر میں ۸ اکر وڑ ۵۳ لاکھ روپیہ کی لاگت آئی۔ ۱۵۰۰ کاریگروں اور ۱۲۰۰ مزدوروں نے ۱۴ سال تک کام کرکے اس کو مکمل کیا۔ یہ معلومات مندرکے دروازہ پر ایک کتبہ میں درج ہیں۔
پورا مندر تصویری نقاشی سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں صناعی کا کمال ضرور ہے مگر اس میں تاج محل والی سادگی نہیں ۔ اس سے محظوظ ہونے کے لیے دو میں سے ایک چیز ضروری ہے –––––تصویر پسندی یابت پرستی۔ فطری سادگی کا ذوق رکھنے والا آدمی اس سے محظوظ نہیں ہو سکتا۔
۳۱ جولائی کو عصر کی نماز آبوروڈ کی ایک مسجد میں پڑھی۔ میں نے پوچھا کہ اس مسجد کا نام کیا ہے۔لوگوں نے بتایا کہ " چھوٹی مسجد" میں نے کہا کہ یہ تو اچھی خاصی بڑی مسجد ہے۔ معلوم ہوا کہ پہلے وہ کافی چھوٹی تھی ۔ تعمیر ثانی میں اس کی توسیع ہوئی۔ مگر نام وہی "چھوٹی مسجد " باقی رہا۔ اس دنیا کا نظام بھی عجیب ہے۔ یہاں کبھی چھوٹی چیز کو بڑا کہتے ہیں اور کبھی بڑی چیز کا نام چھوٹا رکھ دیتے ہیں۔
۳۱ جولائی ۱۹۸۹ کی شام کو آشرم اکسپریس سے دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ آبو روڈ میں اپنے ڈبہ میں داخل ہوا تو اس کے اندر دو ہندو موجود تھے ۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا "آپ کیا کام کرتے ہیں"۔ اس نے جواب دیا" میری ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان ہے "۔ دوسرا بولا "اچھا میں تو ریڈی میڈ کپڑے تیار کراتا ہوں" ۔ اس کے بعد دونوں میں وزٹنگ کارڈ کا تبادلہ ہوا، اور دونوں کے درمیان اپنے کاروبار کی باتیں ہونے لگیں۔
میں نے سوچا کہ عام لوگوں کے لیے باہم تعلق قائم کرنا بہت آسان ہے۔ کیوں کہ وہ سب ایک دنیا کے مسافر ہیں۔ وہ بہت جلد گفتگو اور تعلق کی مشترک بنیاد پالیتے ہیں، اس کے مقابلے میں ایک سچے مومن اور سچے داعی کے لیے تعلق قائم کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ کیوں کہ وہ لوگوں کے درمیان ایک غریب (ا جنبی )شخص ہوتا ہے۔ دوسرے لوگوں میں کسی خاص کوشش کے بغیر با ہم تعلق قائم ہو جاتا ہے ۔ جب کہ داعی اور مصلح کو تعلق قائم کرنے کے لیے یک طرفہ طور پر خصوصی اسباب جمع کرنے پڑتے ہیں۔ دوسرے لوگ جس چیز کو کسی غیر معمولی جدو جہد کے بغیر پالیتے ہیں، وہ داعی کو غیر معمولی جد و جہد کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ اسی کا نام صبر ہے۔
صبر دعوت کی قیمت ہے۔ جو شخص صابر نہ ہو ، وہ داعی بھی نہیں بن سکتا۔