آدھا حل
واشنگٹن میں مختلف انتظامی اور تجارتی شعبوں کے ماہرین کی میٹنگ ہوئی۔ اس میں پورے امریکہ سے ۲۳ ٹاپ کے افراد شریک ہوئے۔ ان میں سے ایک جیمز ہاروے (James Harvey) تھے جو ٹرانس امریکہ کارپوریشن Transamerica Corp) )کے چیرمین ہیں۔ جیمز ہاروے نے امریکہ کے بعض اہم داخلی مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا پہلا کام مسئلہ کی اصل نوعیت کو جاننا ہے ۔ تجارت میں آدھا حل سادہ طور پر یہ ہے کہ آپ مسئلہ کو جان لیں :
In business, half the solution is simply knowing the problem.
ٹائم میگزین (یکم مئی ۱۹۸۹) کے صفحہ ۵ پر میں نے یہ قول پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ کہنے والے نے اس چھوٹے سے جملہ میں بہت بڑی بات کہہ دی ہے۔ یقینا ً مسئلہ کے حل کی طرف کامیاب پیش قدمی کا پہلا زینہ یہ ہے کہ آپ مسئلہ کو صحیح طور پر جان لیں۔ اگر آپ مسئلہ کو صحیح طور پر نہ جانیں تو آپ غیر متعلق راہوں میں دوڑنا شروع کر دیں گے۔ اور غیر متعلق را ہوں میں دوڑ نا صرف اپنی کوششوں کو ضائع کرتا ہے نہ کہ حل کی کوشش کرنا ۔ غلط جد و جہد اس دنیا میں کبھی کسی حقیقی انجام تک نہیں پہونچتی۔
ہندستان کی سروسوں میں مسلمانوں کو کم جگہ ملی ہوئی ہے۔ اسی طرح اعلی سائنسی اداروں میں وہ داخلہ نہیں پاتے۔ مسلم رہنما تعصب کو اس کا سبب قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ پچھلے تقریباً ۵۰ سال سے وہ تعصب کے خلاف لفظی طوفان برپا کیے ہوئے ہیں مگر اس لمبی جد و جہد کا ایک فی صد بھی کوئی فائدہ مسلمانوں کو نہ مل سکا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلم رہنماؤں نے مسئلہ کی نوعیت ہی کو نہیں جانا۔ پھر وہ اس کا حل نکالنےمیں کس طرح کامیاب ہو سکتے تھے ۔
یہ مسئلہ جو موجودہ مسلمانوں کو درپیش ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اپنے رہنماؤں کی نادان رہنمائی کی بنا پر وہ تعلیم میں پیچھے ہو گئے ۔ سروسوں اور داخلوں میں ان کے پیچھے ہونے کا یہی واحد سبب ہے۔ اب اس مسئلہ کا آدھا حل یہ ہے کہ وہ اس راز کو جان لیں اور پھر تعلیمی میدان میں اپنی محنت شروع کر دیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو صرف دس سالہ عمل کے ذریعہ وہ مسئلہ حل ہو جائے گا جو غلط رُخ پر ۵۰ سالہ چیخ پکار کے باوجود حل نہ ہو سکا۔