قومی توہین
مسجد کے سامنے سے ہندؤوں کا جلوس گزرے تو مسلمان فوراً اس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر اسی مسجد کے سامنے سے مسلمانوں کا شادی کا جلوس گزرے تو کوئی مسلمان اس کو روکنے کے لیے نہیں اٹھتا۔ کوئی ہندو اگر مسجد کے اندر ٹرانسسٹر بجائے تو مسلمان اتنا مشتعل ہوں گے کہ پوری بستی میں فساد کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ لیکن اسی مسجد میں اگر مسلمان ٹرانسسٹر بجائے تو کسی مسلمان کو غصہ نہیں آتا۔ کوئی ہندو مسجد میں بُت رکھ دے تو فوراً ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔ مگر مسلمان بزرگوں کی درگاہوں میں ان کی قبر کو بُت بنا کرپوجتے ہیں اور اس پر کوئی شور نہیں مچتا۔
ایک ہی قسم کے دو واقعات میں یہ فرق کیوں ہے ۔ کیوں ایسا ہے کہ مسلمان ایک ہندو کے جس فعل پر بھڑکتے ہیں ، وہی فعل ایک مسلمان کرے تو وہ نہیں بھڑکتے۔ اس کی وجہ مسلمانوں کی خود ساختہ قومی شریعت ہے نہ کہ خدا کی دی ہوئی اسلامی شریعت ۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اپنی پڑوسی قوم کے ساتھ پچھلی نصف صدی سے رقابت (Rivalry) قائم کر رکھی ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ جب وہ کوئی ایسا واقعہ دیکھتے ہیں جس میں ان کے خیال کے مطابق، ہندو قوم ، مسلم قوم کی بڑائی کو پامال کر رہی ہو تو وہ اس میں اپنی قومی تو ہین محسوس کرتے ہیں اور قومی جذبہ کے تحت بھڑک اٹھتے ہیں اور فریقِ ثانی سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
مسلمانوں نے بطور خود ان چیزوں کو ملی غیرت یا اسلامی غیرت کا نام دے رکھا ہے ۔ مگر یہ غلطی پر سر کشی کا اضافہ ہے۔ یہ ایک جھوٹے قومی عمل کو اسلام کی اصطلاحوں میں بیان کرنا ہے۔ مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ ایسا ہر فعل اللہ کی نظر میں صرف ان کے وزر کو بڑھاتا ہے ، وہ کسی بھی درجہ میں ان کو انعام کا مستحق نہیں بناتا۔
اس قسم کا لڑائی جھگڑا کرنے والے اگر چہ ہمیشہ عوام ہوتے ہیں ۔ مگر مسلمانوں کے رہنما بھی اس معاملہ میں یکساں طور پر مجرم ہیں۔ کیوں کہ مسلمانوں میں سے جو لوگ ایسا کرتے ہیں، مسلم رہنما کبھی ان کی مذمت نہیں کرتے ۔ اس طرح عوام اگر براہ راست طور پر اس کے ذمہ دار ہیں تو خواص اور رہنما بالواسطہ طور پر۔ اور قرآن وحدیث کے مطابق، اس طرح کے معاملہ میں بالواسطہ شرکت بھی اتنی ہی بُری ہے جتنی براہ ِراست شرکت۔