تجارت کا میدان

ایک روایت کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تِسْعَةُ ‌أَعْشَارِ ‌الرِّزْقِ ‌فِي ‌التِّجَارَةِ (کنز العمال، 9342) یعنی روزی کے  ۹۰  فی صد حصے تجارت میں ہیں۔

  یہ حقیقت قدیم روایتی زمانے     میں ایک قسم کی پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی۔ کیوں کہ قدیم زمانے     میں اصل اہمیت زراعت کی تھی نہ کہ تجارت کی ۔ مگر آج پیغمبر کا یہ کلام ایک ثابت شدہ حقیقت بن چکا ہے۔ موجودہ زمانے     میں نئے طریقوں کی دریافت نے تجارت کی وسعت بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔ آج تجارت دوسرے ذرائع معاش پر بدرجہا  زیادہ فائق ہو چکی ہے ۔ اس کی ایک مثال ہندستان کے پارسی ہیں۔ ہندستان میں پارسیوں کی تعداد بمشکل ایک لاکھ ہے ۔ مگر تجارت کے میدان میں عمل کر کے انھوں نے ملک کی دولت کے ایک بہت بڑے حصہ پر قبضہ کر لیا۔

موجودہ زمانے     میں تجارت کی فوقیت صرف ملازمت اور زراعت جیسے روایتی ذرائع ہی پر قائم نہیں ہوئی ہے ، بلکہ اس نے سیاست اور فوج اور ہتھیار جیسی چیزوں پر بھی فیصلہ کن غلبہ حاصل کر لیا  ہے۔ اس کی ایک مثال جاپان ہے۔ جاپان نے اپنی تجارتی ترقی کے ذریعہ یہاں تک بالاتری حاصل کی کہ اس نے امریکہ کی فوجی اور سیاسی طاقت کو اپنے مقابلہ میں بے اثر بنا دیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو دیکھئے اور اس کے بعد موجودہ مسلمانوں کی روش پر غور کیجئے ۔ ہندستان کے مسلمان آج سب سے زیادہ جس بات کی شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان کو سرکاری ملازمت میں نہیں لیا جاتا ۔ ملازمتوں اور داخلوں کے کوٹہ میں ان کےلیے رزرویشن نہیں ہے ۔

مسلمانوں کی یہ روش پیغمبر اسلام کے خلاف عدم اعتماد کے اظہار کے ہم معنی ہے۔ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ فرمارہے ہیں کہ رزق کا ۹۰  فی صد حصہ تجارت میں ہے۔ پیغمبر اسلام کی اسی تعلیم کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ اور تابعین بہت بڑے پیمانہ پر تجارتوں میں داخل ہو گئے   ۔ چنانچہ صحابہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خشکی اور تری میں تجارت کیا کرتے تھے (وَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‌يَتَّجِرُونَ ‌فِي ‌الْبَرِّ ‌وَالْبَحْرِ)

مگر موجودہ زمانے     کے مسلمان پیغمبر کے اس کلام کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ تجارت کا میدان ان کے لیے پوری طرح کھلا ہوا ہے مگر وہ اس میں محنت نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس وہ اس ذریعہ ٔمعاش کی طرف اپنی نظریں لگائے ہوئے ہیں جو پیغمبر کے ارشاد کے مطابق ، معاشی ذرائع کے صرف دس فی صد حصہ پرمشتمل ہیں۔ وہ اس ذریعہ معاش کو عملاً چھوڑے ہوئے ہیں جو ۹۰ فی صد معاشی ذرائع سے تعلق رکھتا ہے ۔

موجودہ مسلم رہنماؤں نے ایسے اخبار اور رسالے نکال رکھے ہیں جن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر ہفتہ یا ہر مہینہ مسلمانوں کو اس بات کی خبر دیں کہ فلاں سروس میں ان کا تناسب اتنا کم ہے اور فلاں داخلہ میں وہ اتنی کم تعداد میں لیے گئے   ہیں۔ اس قسم کے پرچے نکالنے والے بیک وقت دو جرم کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ پیغمبر اسلام کی ، نعوذ باللہ تحقیر کر رہے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارشاد سے مسلمانوں کو یہ رہنمائی دے رہے ہیں کہ اگر تمہارے لیے دس فی صد ذرائع والے میدان میں مواقع نہیں ہیں تو اس کی پروا نہ کر و ۔ تم اس میدان میں داخل ہو جاؤ جو ذرائع معاش کے ۹۰  فی صد حصہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ اور جو آج بھی تمہارے لیے پوری طرح کھلا ہوا ہے ۔ مگر مسلمانوں کے جھوٹے لیڈر رسول کی آواز پر اپنی آواز بلند کر کے چیخ رہے ہیں کہ اصل معاشی میدان تو ملازمتوں کا میدان ہے اور وہاں مسلمانوں کے لیے دروازہ بند کر دیا گیا ہے ۔

قرآن کے مطابق، جو شخص رسول کی آواز پر اپنی آواز بلند کرے اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں (الحجرات ۲) اس آیت کی روشنی میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے     کے نام نہاد لیڈر حبطِ اعمال کے اس قانون کی زد میں آگئے   ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ۵۰ سالہ چیخ پکار مکمل طور پر بے فائدہ ثابت ہوئی۔ وہ اپنے دعوی کے مطابق، ملازمتوں کی فہرست میں ، مسلمانوں کا اضافہ کرنےمیں کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔

مسلمانوں نے اگر بالفرض اس ملک میں"۱۰  فی صد" رزق والے میدان کو کھو دیا ہو تب بھی"۹۰  فیصد" رزق والا میدان اب بھی ان کے لیے کھلا ہوا ہے ۔ ان کو چاہیے کہ وہ اس دوسرے وسیع تر میدان میں داخل ہو جائیں۔ اس کے بعد انھیں اپنے ماحول کے خلاف تعصب اورامتیاز کی شکایت نہ ہوگی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom