ایک موت
ویر بہادر سنگھ ۱۸ فروری ۱۹۳۵ کو ہرنا ہی (گورکھپور) میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے گورکھپور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد وہ کانگریس میں شریک ہو گئے اور ترقی کرتے کرتےوزارت کے عہدے تک پہونچے ۔
۲۵ ستمبر ۱۹۸۵ کو انھوں نے یوپی کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ تین سال سے زیادہ عرصہ تک اس عہدہ پر رہے۔ اس کے بعد انھیں دہلی کی مرکزی حکومت میں مواصلات کا وزیر بنا دیا گیا۔ مرکزی وزیر کی حیثیت سے وہ ٹیلی کمیونی کیشن کی بین اقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے پیرس گئے ہوئے تھے ۔ وہاں عین کا نفرنس کی کارروائی کے دوران ان پر دل کا دورہ پڑا ، اور ۳۰ مئی ۱۹۸۹ کو پیرس کے اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔
یوپی میں بابری مسجد اور میرٹھ کے واقعات ویر بہادر سنگھ ہی کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ اس بنا پر وہ مسلمانوں کے درمیان بہت زیادہ بدنام ہوئے ۔ ٹائمس آف انڈیا کے لکھنؤ اڈیشن کے اڈیٹر مسٹروی ایم با دو لانے ویر بہادر سنگھ کے حالات پر ایک مضمون لکھا ہے جو ٹائمس آف انڈیا (۳۱ مئی۱۹۸۹)میں چھپا ہے۔ اس مضمون کا ایک پیراگراف یہ ہے :
He displayed an utter lack of political farsightedness. He never cared to look back, as he often boasted, but then, he was also incapable of looking ahead. A case in point was his handling of the Babri Masjid issue and he is said to have masterminded the opening of the locks of the disputed property at the instance of Mr. Arun Nehru, then Union minister for internal security, only to appease the Hindus. The mishandling of the Muslim problem in general and the Meerut riots in particular did not particularly endear him to the people (p. 13)
انھوں نے سیاسی دور اندیشی سے کامل فقدان کا مظاہرہ کیا۔ جیسا کہ وہ اکثر پر فخر طور پر کہا کرتے تھے، وہ کبھی اس کی پروا نہیں کرتے تھے کہ پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ آگے کی طرف دیکھنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے تھے۔ اس کی ایک بہت واضح مثال بابری مسجد کا مسئلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہی اس کا دماغ تھے اور انھیں نے سابق مرکزی وزیر مسٹر ارون نہرو کے اشارہ پر اس متنازعہ عمارت کا تالا کھلوایا تھا ۔ صرف اس لیے کہ اس طرح وہ ہندوؤں کو خوش کر سکیں گے ۔مسلمانوں کے مسئلہ کو ، خاص طور پر میرٹھ کے فسادات کو برے طریقہ سے انجام دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عوام کے اندر مقبولیت حاصل نہ کر سکے (صفحہ ۱۳)
مسٹر با دولا کے یہ الفاظ پڑھ کر میں نے سوچا کہ ویر بہادر سنگھ کے بارے میں اتنا کھلا ہوا تبصرہ شاید کوئی مسلم دانشور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بلاشبہ یہ انتہائی منصفانہ اور جرات مندانہ تبصرہ ہے اور مسٹر با دو لا اس کے مستحق ہیں کہ ملک کے نمبر ایک انگریزی اخبار میں ایسا تبصرہ شائع کرنے پر انھیں مبارکباددی جائے۔
مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں آجکل جو لکھنے اور بولنے والے ہیں ، وہ اس ملک کے بارے میں تعصب اور ظلم کی داستانوں کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ انھیں "ویر بہادر سنگھ "کی خبر ہے،مگر انھیں "وی ایم با دولا" کی کوئی خبر نہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اعلان کیا ہے کہ اس دنیا میں ہمیشہ عسر کے ساتھ یسر بھی موجود رہتا ہے۔ مگر موجودہ مسلمان لیڈر"یسر بلائنڈ" ہو چکے ہیں۔ ان کو یہاں صرف عسر دکھائی دیتا ہے، یسر کے مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں مگر وہ انھیں نظر نہیں آتے ۔
دوسری بات ویر بہادر سنگھ سے متعلق ہے ۔ انھوں نے اپنی وفات سے صرف چند ماہ پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں آج میں جیتا ہوں، میں کل کی پروا نہیں کرتا۔ انھوں نے" میرٹ" اور "بابری مسجد" کے معاملہ میں جو کچھ کیا ، اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ صرف اپنے آج کو دیکھتے تھے ، وہ کل کی فکر نہیں کرتے تھے ۔ حالاں کہ اصل حقیقت یہ تھی کہ ان کا آج چند دن بعد" ۳۰ مئی "کو ختم ہوجانے والا تھا۔ اس کے بعد جو کل ان کے لیے مقدر تھا، وہ یہ کہ وہ ایک عام انسان کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں جواب دہی کے لیے حاضر کر دیے جائیں۔ ویر بہادر سنگھ اگر اس حقیقت کو جانتے تو وہ آج سے زیادہ کل کے لیے فکر مند ہوتے ، اس کے بعد وہ اس سے بالکل مختلف انسان بن جاتے جیسا کہ وہ اپنی زندگی کے آخر تک بنے رہے ۔" آج" کو جاننا آدمی کو سرکش اور بے انصاف بناتا ہے ، اور "کل"کو جاننا ذمہ دار اور انصاف پسند ۔لوگ صرف اپنے آج کو جانتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ سرکش اور بے انصاف بنے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے کل کو جانیں تو ان کی زندگیاں بالکل بدل جائیں۔