اردو نسل

ٹائمس آف انڈیا ( ۲۶ مارچ ۱۹۸۹) میں ایک با تصویر خبر چھپی ہے ۔ یہ مسٹر موہن سروپ ملک کے بارے میں ہے ۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ وہ ٹائمس آف انڈیا کے ایک اسٹاف رپورٹر تھے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۸۹ کو ان کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے سینٹ اسٹیفنس کالج سے انگلش میں بی اے کیا۔ بمبئی سے انھوں نے جرنلزم کا ڈپلوما حاصل کیا۔ وہ انگلش ، پنجابی ، ہندی ، اردو اور جرمن بخوبی طور پر جانتے تھے :

He graduated in English from St. Stephen's College, Delhi, and also obtained a diploma in journalism from the Bombay College of Journalism. He was well versed in English, Punjabi, Hindi, Urdu and German.

موہن سروپ ملک کی اس نسل کے ایک فرد تھے جو ۱۹۴۷ سے پہلے کے ہندستان میں تیار ہوئی ۔ اس زمانے     کے تعلیم یافتہ لوگ عام طور پر اردو زبان جانتے تھے ۔ ۱۹۴۷ کے بعد یہی لوگ ہندستان کے مختلف شعبوں کے انچارج ہے۔ مزید یہ کہ تقسیم کے نتیجےمیں جولوگ پاکستان کو چھوڑ کر ہندستان آئے وہ بھی سب کے سب اُردو داں تھے ۔

یہی" اُردو داں" لوگ تھے جو آزاد ہندستان کے مختلف شعبوں کے انچارج بنے ۔ ڈاکٹر را جندر پرشاد سے لے کر ایک اخباری رپورٹر اور پٹواری تک بیشتر لوگ وہی تھے جو بخوبی طور پر اردو جانتے تھے ۔ تقسیم کے بعد کے ہندستان میں یہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم الشان سرمایہ تھا۔ مگر وہ اس سرمایہ کو ایک فیصد بھی استعمال نہ کر سکے ، یہاں تک کہ ملک میں وہ دوسری نسل اور پرآگئی جو اردو سے نابلد تھی ۔

موجودہ زمانے     کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ انھیں امکانات نظر نہیں آتے ۔ وہ کھوئی ہوئی چیز کی بابت تو خوب جانتے ہیں، مگر جو چیز کھوئی نہیں گئی ہے ، جو اب بھی امکانی طور پر انھیں حاصل ہے، اس سے بالکل بے خبر رہتے ہیں۔ موجودہ زمانے     کے مسلمانوں کی بربادی کی کم از کم ایک وجہ یقینا ً یہی ہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom