حل کی طرف
ہندستان کے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو پر ایک کتاب لندن سے شائع ہوئی ہے ۔ اس کو مسٹرایم جے اکبر نے مرتب کیا ہے اور وہ ۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہے :
M.J. Akbar, Nehru: The Making of India, 1988.
اس کتاب میں نہرو کی زندگی سے متعلق کافی معلومات درج ہیں۔ اس کے باب ۴۷ میں مولف نے لکھا ہے کہ ۱۹۵۷ کے الکشن کے بعد جب کیرالا میں کمیونسٹ پارٹی نے وزارت بنائی تو نئی دہلی کی ایک مجلس میں اس کا ذکر آیا ۔ ایک ہال میں حکومت کے بڑے بڑے افسروں کے ساتھ نہرو بحیثیت وزیر اعظم شریک تھے ۔ گفتگو کے دوران مسٹر وائی ڈی گنڈ یویا نے کہا کہ جناب ، کیرالا میں کمیونسٹوں نے اپنی حکومت بنالی ہے۔ اگر وہ کل کے الکشن میں دوبارہ جیت جائیں اور دہلی کی حکومت پر قبضہ کر لیں تواس کے بعد مرکز کا کیا حال ہو گا ۔
نہرو نے جواب دینے سے پہلے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولے "کمیونسٹ ،کمیونسٹ، کمیونسٹ ، آخر آپ لوگ کمیونسٹوں سے اور کمیونزم سے اس قدر گھبراتے کیوں ہیں۔ آپ کیوں ایسا سوچتے ہیں کہ کمیونسٹ مرکز میں اقتدار حاصل کرلیں گے "۔یہ اس کے بعد نہرو دوبارہ چپ ہو گئے ۔ پھر رک رک کر اور اعتماد کے لہجہ میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ ہندستان کے لیے خطرہ ، اچھی طرح جان لیجئے، کمیونزم نہیں ، یہ دائیں بازو کی ہندو فرقہ پرستی ہے :
The danger to India, mark you, is not Communism.
It is Hindu right-wing communalism (p. 580).
مسٹر گنڈیو یا جنہوں نے اپنی کتاب Outside the Archives میں یہ واقعہ لکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ نہرو نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے اپنے مذکورہ جملہ کو کئی بار دہرایا ۔
جواہر لال نہرو کو مہاتما گاندھی نے اپنا سیاسی جانشین (Political successor) کہا تھا۔ چنانچہ آزادی کے بعد وہ ہندستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ تاہم جواہر لال اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک نرم آدمی تھے ۔ دوسری طرف کیبنٹ میں ان کے رفیق سردار پٹیل ایک آہنی انسان کہے جاتےتھے۔ سردار پٹیل مزاجاً سخت متعصب تھے ، اسی کے ساتھ مرکز ی حکومت میں امورِ داخلہ کا شعبہ ان کے پاس تھا ۔
آزادی (۱۹۴۷) کے فوراً پہلے اور اس کے بعد ملک میں جو فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے۔ ان کو دبانے کی اصل ذمہ داری سردار پٹیل کی تھی ۔ مگر انھوں نے اس معاملہ میں ڈھیل دینے کی پالیسی اختیار کی۔ جواہر لال نہرو کو اس مسئلہ پر سردار پٹیل سے سخت اختلاف تھا۔ بدرالدین طیب جی نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ اگر نہرو نے اس معاملہ میں اس وقت مضبوط موقف اختیار کیا ہوتا ، وہ سردار پٹیل کی مخالفت کرتے جب کہ ابھی مہاتما گاندھی زندہ تھے توہندستان کی سیاست کا رخ بالکل دوسرا ہوتا :
If he had taken a stand then, opposing Sardar Patel while Gandhi was still alive, Indian politics would have taken quite a different turn.
Badruddin Tayabji, Memoirs of An Egoist, vol. I, p. 186.
میرے نزدیک یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ نہرو ایک طرف آزاد ہندستان کے مسائل رکھتے تھے جن سے نمٹنے کے لیے انھیں ایک سخت ہاتھ کی ضرورت تھی۔ مثال کے طور پر ۵۰۰ دیسی ریاستوں کا مسئلہ، اس کو سردار پٹیل کے سخت ہاتھ نے جس طرح حل کیا ، غالباً نہرو کے لیے اس طرح اس کا حل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ پٹیل کسی ایک شخص کا نام نہ تھا ، وہ در اصل ہندو فرقہ پرستی کے پورے گروپ کی علامت تھا۔ یہ گروپ اتنا طاقتور تھا کہ اس نے اسی سوال پرخود گاندھی کو قتل کر دیا۔ پھر نہرو کے لیے کیوں کر ممکن تھا کہ وہ اس پر قابو پالیتے۔
کسی دوسرے کی کمزوری سے زیادہ یہ خود ہندو فرقہ پرستی کی طاقت تھی جس نے نہرو کو دبایا۔ اسی نے مہاتما گاندھی کو گولی کا نشانہ بنایا۔ راج گوپال اچاری کو سیاست سے بے دخل کر دیا اور اوراکشے برہم چاری جیسے کتنے منصف مزاج ہندؤوں کو عاجز کر کے چھوڑ دیا ۔ وغیرہ
نہرو نے جس خطرہ کی نشاندہی کی تھی، وہ آج ایک واقعہ بن چکا ہے۔ آج ہندو فرقہ پرستی اپنی پوری طاقت کے ساتھ جاگ اٹھی ہے اور اپنے بھیانک نتائج دکھا رہی ہے۔ آج بھی ہندؤوں میں ایسے ہوش مند اور انصاف پسند لوگ موجود ہیں جو اس کے خلاف آواز اٹھا رہےہیں ۔ اخبارات ور سائل کا مطالعہ کرنے والوں کے سامنے برابر اس کی مثالیں آتی رہتی ہیں۔ یہاں ہم صرف ایک مثال کا ذکر کرتے ہیں۔
مشہور ہندی ہفت روزه پانچ جنیہ (۲ نومبر ۱۹۸۸) میں مسٹر اٹل بہاری باجپئی کا انٹرویو شائع ہوا ہے جو ہر محب وطن کے لیے پڑھنے کے قابل ہے۔ اس کا عنوان اس پورے انٹرویو کاخلاصہ ہے :
پرتی کریا میں جنماجاگرن پیچھے ڈھکیلتا ہے
یعنی ردِّ عمل کے ذریعہ جو بیداری آئے ، وہ قوم و ملک کو آگے نہیں بڑھاتی ، بلکہ پیچھے کی طرف لے جاتی ہے۔ جس طرح مسلمانوں میں بہت سے لوگ مسلمانوں کی ردِّ عمل کی تحریکوں کو صحوہ اسلامیہ کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح ہندوؤں میں بہت سے خوش فہم لوگ ہیں جو ہندوؤں کے درمیان مسلم ردِّعمل کے تحت اٹھنے والی لہر کو" ہندو بیداری "کا نام دے رہے ہیں۔ مسٹر با جپئی نے ایسے ہندوؤں کو آگاہی دی ہے کہ یہ ایک منفی بیداری ہے ، اور منفی بیداری ہمیشہ تباہی کا باعث ہوتی ہے ، وہ تعمیر کا سبب نہیں بنتی۔
کوئی شخص خواہ کتنے ہی بڑے سیاسی عہدہ پر ہو ، اس کو کبھی بے قید اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ جنرل محمدضیاء الحق ساڑھے گیارہ سال (۸۸ - ۱۹۷۷) تک پاکستان کے مطلق حکمراں رہے۔ مگر پاکستان کی جو طاقتیں ملک کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں ، ان میں سے کسی ایک پر بھی وہ ہاتھ نہ ڈال سکے ––––– مثلاً بڑے بڑے جاگیردار، اسمگلر، منشیات اور ہتھیاروں کا کاروبار کرنے والے ، بیورو کریسی، رشوت لینے اور دینے والے، ٹیکس کی چوری کرنے والے ، علاحدگی پسند،سیاست دان، و غیره
میں اس کو نا ممکن سمجھتا ہوں کہ کوئی وزیر یا حکمراں ہندستان کے اس مسئلہ کو حل کر سکتا ہے جس کو نہرو نے "ہندوفرقہ پرستی "کہا ہے۔ ہندو فرقہ پرستی تمام تر مسلم فرقہ پرستی کا ردِّ عمل ہے، اور یہ صرف مسلمان ہیں جو قرآن کے اصول کے مطابق ، صبر اور اعراض کی پالیسی اختیار کر کے اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتے ہیں ۔
ہندستان کے مسلمان اس "ہندو فرقہ پرستی "کے جواب میں آج بھی ٹھیک وہی طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو انھوں نے ۱۹۴۷ء سے پہلے مسلم لیگی لیڈروں کی رہنمائی میں اختیار کیا تھا، یعنی ہندو فرقہ سے براہ راست لڑنا ، اس کے خلاف ایجی ٹیشن کرنا ، اس کی مذمت میں اپنے تمام الفاظ خرچ کر دینا ۔
۱۹۴۷ سے پہلے مسلمانوں نے جو سیاست اختیار کی ، اس کے تجربہ نے بتایا کہ مذکورہ بالا قسم کی جوابی تحریک صرف فرقہ پرستی کے مسئلہ کو بڑھاتی ہے ، وہ کسی بھی درجہ میں اسے کم نہیں کرتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستان کے مسلمان ۱۹۴۷ سے پہلے جس درجہ کی ہندو فرقہ پرستی سے دوچار تھے ، آج اس میں سو گنا زیادہ اضافہ ہو گیا ہے ، ایسی حالت میں سابقہ پالیسی پر قائم رہنے کا آخر کیا جواز ہے۔ کیا مسلمان ایک بل میں دو بار ہاتھ ڈال کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حدیث کے مطابق، ان کو مؤمنانہ بصیرت حاصل نہیں ، وہ سرے سے ایمان کی روشنی ہی سے محروم ہیں ۔
مدعونہ کہ حریف
مسلمانوں کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ہندستان کی فرقہ پرستی کا واحد حل وہی ہے جو قرآن میں بتایا گیا ہے۔ یعنی صبر اور اعراض ۔ مسلمانوں کو یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ یک طرفہ طور پر صبر اور اعراض کا طریقہ اختیار کریں گے ، وہ ہر حال میں ردِّ عمل کی روش سے بچیں گے ۔ یہی پہلے بھی ان کے مسئلہ کا حل تھا اور آج بھی یہی ان کے مسئلہ کا حل ہے ۔ اس کے سوا وہ تدبیریں جو ان کے بے ریش اور باریش رہنما ان کو بتا رہے ہیں، وہ صرف ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہیں۔ وہ ہرگز منزل کی طرف لے جانے والی نہیں ۔
مسلمان اب تک ہندؤوں کو اپنا حریف اور رقیب سمجھتے رہے ہیں۔ ان کا یہ رویہ سراسر باطل ہے ۔ وہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والا ہے ۔ مسلمان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس ملک میں خدا کے دین کے داعی ہیں۔ ہندو ان کے لیے مدعو کا درجہ رکھتے ہیں۔ مدعو اپنے داعی کا محبوب ہوتا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہندوؤں کے تئیں اپنے نفرت کے جذبات کو کھرچ کر نکال دیں۔ اور ان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبے کے ساتھ معاملہ کریں ۔ یہی ان کے سارے مسائل کی کنجی ہے ۔ یہی ان کی منزل کا آغاز ہے اور یہی ان کی منزل کا اختتام بھی ۔
ایک تعلیم یافتہ ہند و جو انگریزی الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انھوں نے اپنے چار صفحہ کےخط میں اپنا تبصرہ روانہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ میں ایک پیدائشی ہندو ہوں مگر میں کسی بھی مذہب میں عقیدہ نہیں رکھتا ۔ خواہ وہ ہندو مذہب ہو یا اور کوئی مذہب۔ البتہ میں انسانیت اور انسانی شرافت کا دل سے قائل ہوں۔ وہ مزید لکھتے ہیں :
A large number of Hindus are orthodox and they are routinely busy making money and performing rituals and ceremonies for serving their selfish ends, at the same time trying to "buy" a berth in swarg in the next world. And because they have lots of material possessions, they know they will stand to lose much in consequence of riots. But when they are goaded to the end of their tether by other communities, they sometimes let their resentment erupt but not for a long period of time.
K.L. Dutta, W. 6/110, Premnagar, Dehra Dun
ہندوؤں کی بڑی تعداد کٹرمذہبی ہے مگر وہ صبح و شام پیسہ کمانے میں مشغول رہتے ہیں۔ اور رسوم و روایات کی تعمیل میں لگے رہتے ہیں تاکہ اپنے خود غرضانہ مقاصد کو پورا کر سکیں۔ اور اسی کے ساتھ اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ وہ دوسری دنیا میں سورگ میں اپنے لیے ایک جگہ خرید سکیں ۔ ان کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ فساد جیسی پُر تشد د چیزوں میں حصہ لیں۔ اور چوں کہ ان کے پاس مادی ساز و سامان کافی موجود ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ فسادات کے نتیجے میں وہ بہت کچھ کھو دیں گے ۔ مگر جب وہ دوسرے فرقوں کی طرف سے آخری حد تک چھیڑ دیے جاتے ہیں تو بعض اوقات ان کی ناراضگی ابل پڑتی ہے ۔ مگر بہت زیادہ دیر تک کے لیے نہیں ۔
مسٹرکے ایل دتہ کے اس نقطہ ٔنظر سے میں متفق ہوں ۔ ہندو بنیادی طور پر ایک تاجر پیشہ قوم ہیں ۔ اور فساد اور اس کے نتیجے میں کرفیو کا سب سے زیادہ نقصان تاجر طبقہ ہی کو پہونچتا ہے۔اس لیے اصولی طور پر ہندو، بحیثیتِ قوم ، فساد کو پسند نہیں کر سکتے۔
پھر فساد کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو سب کے سب تاجر نہیں ہیں۔ ان میں ایک طبقہ غیر تاجروں اور غریبوں کا ہے ۔ یہی دوسرا طبقہ اکثر اوقات فساد کا ابتدائی سبب بنتا ہے۔ اس دوسرے طبقہ کا کوئی فرد ایک مسلمان کے ساتھ کوئی اشتعال انگیز کارروائی کرتا ہے، اور ایسا ہونا کسی آزاد سماج میں بالکل فطری ہے۔ اس وقت مسلمان بے برداشت ہو جاتا ہے۔وہ اشتعال انگیزی کی صورت میں مشتعل ہو کر لڑنے لگتا ہے۔
اس کے بعد خود مسلمانوں کی دو قومی سیاست کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ دو فرد کا مسئلہ دو قوم کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی قوم کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ قومی شکایات جو سوئی ہوئی تھیں ، اچانک جاگ پڑتی ہیں۔ قومی ساکھ اور قومی حمیت کا مسئلہ بن جانے کی وجہ سے دونوں فرقوں میں سے کوئی شخص یہ ہمت نہیں کرتا کہ وہ اپنے فرقہ کے خلاف بولے تمام لکھنے اور بولنے والے یک طرفہ طور پر اپنے فرقہ کی حمایت اور دوسرے فرقہ کی مذمت شروع کر دیتے ہیں۔ قومی حمایت کا یہی انداز ہندو بھی اختیار کرتے ہیں اور یہی انداز مسلمان بھی ۔
اب فرقہ وارانہ فساد کو ختم کرنے کی تدبیر صرف ایک ہے ۔ وہ یہ کہ مسلمان پورے عزم کے ساتھ یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں گے ۔ وہ ہر حال میں صرف اعراض کی پالیسی اختیار کریں گے نہ کہ لڑنے اور مقابلہ کرنے کی پالیسی۔
اگر مسلمان پوری طرح یہ فیصلہ کر لیں تو یقینی طور پر وہ فساد کی جڑ کاٹ دیں گے ۔ اس کے بعد ہر چنگاری اپنے ابتدائی مرحلہ میں بجھ کر رہ جائے گی، وہ فساد اور قتل وخون کے مرحلہ تک نہ پہونچے گی ۔ جہاں بھی مسلمانوں نے اعراض کا طریقہ اختیار کیا ہے، وہاں لازمی طور پر ایساہی پیش آیا ہے ۔
مسلمان اگر پوری طرح اعراض کی پالیسی اختیار کر لیں تو ابتدائی اشتعال کا ہر واقعہ صرف ایک شخصی واقعہ بن کر رہ جائے گا۔ وہ دو قوموں کے وقار کا مسئلہ نہیں بنے گا۔ اس کے بعد پولیس سے بھی مسلمانوں کی شکایت ختم ہو جائے گی۔ پولیس مسلمانوں کے لیے اس وقت ظالم بنتی ہے جب کہ مسئلہ دو قومی صورت اختیار کرلے ۔ دو قو می صورت اختیار کرنے کے بعد مسلمان پولس کی گولی کا نشانہ بنتے ہیں۔ لیکن اگر مسئلہ دو قومی نہ بنے تو وہ افراد پولیس کی گولی کا نشانہ بنیں گے جنہوں نے ابتدائی طور پر شرارت کی تھی۔