خبر نامہ اسلامی مرکز - ۵۷
۱۔ ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی امریکہ کے ایک اسلامک سینٹر کے ڈائرکٹر ہیں ۔ ۱۹ اگست ۱۹۸۹ کو اسلامی مرکز میں ان کا ایک خصوصی لکچر تھا ۔ لکچر کا عنوان تھا: اسلام امریکہ میں۔ موصوف نے اس موضوع پر مفصل تقریر کی۔ حاضرین میں شہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بڑی تعداد میں موجودتھے۔ کچھ غیر مسلم حضرات بھی شریک ہوئے۔
۲۔نئی دہلی کے اسو کا مشن (Asoka Mission) کی طرف سے ایک عالمی امن سفر (Pilgrimage for active peace) بنایا گیا ۔ اس کے تحت کچھ اعلیٰ تعلیم افراد ایشیا یورپ اور امریکہ کے چھ ملکوں کے دورہ پر یکم ستمبر ۱۹۸۹ کو روانہ ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز کو اس امن پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مگروہ اس میں عملاً شریک نہ ہو سکے۔ البتہ کچھ متعلقہ انگریزی لٹریچر اس سلسلہ میں انھیں فراہم کر دیا گیا جس سے اس معاملہ میں اسلام کا نقطہ ٔنظر واضح ہوسکے۔
۳۔اخبار العالم الاسلامی مکہ مکرمہ سے شائع ہونے والا مشہور اور نہایت کثیر الاشاعت اخبار ہے۔ اس نے اپنے شمارہ ۱۶ ذوالقعدہ ۱۴۰۹ھ میں پیغمبرِ انقلاب (انگریزی) پر پاکستان کے اول انعام کی خبر شائع کی ہے ۔ اسی کے ساتھ اس نے اسلامی مرکز کا اور اس کے دعوتی کاموں کا مفصل تعارف بھی شائع کیا ہے۔
۴۔دین دیال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کے ہال میں ۱۵ اگست ۱۹۸۹ کو اجتماع ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا :
Improving Indo-Bangladesh Relations
صدر اسلامی مرکز کو اس موقع پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ انھوں نے اس میں شرکت کی اور موضوع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
۵۔پاکستان کا ایک ادارہ الانصار المسلمون (لاہور) اسلامی مرکز کی کتاب "نارجہنم "بڑی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کر رہا ہے۔ پہلی بار اس نے یہ کتاب اکتوبر ۱۹۸۸ میں چھپوائی تھی۔ دوسری بار اس نے اس کو جنوری ۱۹۸۹ میں چھپوایا ہے ۔ اس کی کتابت جدید طرز پرکمپوٹر ٹائپ سٹنگ کے ذریعہ کرائی گئی ہے ۔
۶۔گول مارکیٹ( نئی دہلی )میں ۱۲ اگست ۱۹۸۹ کی شام کو ایک پروگرام ہوا ۔ اس میں تعلیم یافتہ اصحاب شریک ہوئے ۔ صدر اسلامی مرکز نے اسلامی دعوت کے جدید امکانات کے موضوع پر سوا گھنٹہ کی ایک تقریر کی۔ اس تقریر کا کیسٹ مرکز میں موجود ہے۔
۷۔"شتم رسول کا مسئلہ"نامی کتاب ۱۸۶ صفحات پر تیار ہو کر اس وقت پریس میں ہے۔ اس موضوع کے ہر پہلو پر اس میں مفصل بحث کی گئی ہے۔
۸۔ویٹیکن کے زیر اہتمام وارسا (پولینڈ )میں ایک کانفرنس ہوئی ۔ یہ کانفرنس ۳۱ اگست تا ۶ ستمبر ۱۹۸۹ جاری رہی۔ اس موقع پر شرکت کے لیے صدر اسلامی مرکز کو مدعو کیا گیا تھا۔ مگر بعض وجوہ سے وہ اس میں شریک نہ ہو سکے۔ البتہ زیر بحث موضوع سے متعلق ایک مقالہ انھیں بھیج دیا گیا۔ اس کا عنوان تھا: War and peace in Islamیہ مقالہ انگریزی الرسالہ میں ان شاء اللہ شائع کر دیا جائے گا۔
۹۔بمبئی میں سیوری کے علاقہ میں ایک چال (بڑی بلڈنگ) ہے جس میں کئی سو آدمی رہتے ہیں۔ اس بلڈنگ کے داخلہ پر ایک بورڈ لگا ہوا ہے ۔ شیخ ابراہیم انجینئر، جو خود اسی بلڈنگ میں رہتے ہیں ، انھوں نے بتایا کہ وہ اکثر الرسالہ کا کوئی فقرہ اس بورڈ پر لکھ دیتے ہیں جس کو لوگ بہت شوق سے پڑھتے ہیں اور اس سے اثر لیتے ہیں ۔ یہ طریقہ دوسرے مقامات پر بھی دہرایا جانا چاہیے۔
۱۰۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الرسالہ کے چند شمارے مرحوم نشتر ترکی کی ترغیب پر پڑھے ۔ اس سے قبل میں الرسالہ اور آپ کی ذات سے سوءِظن میں مبتلا تھا۔ یہ مولانا عامر عثمانی مرحوم اڈیٹر تجلی کی ان تحریروں سے تھا جب انھوں نے آپ کی کتاب "تعبیر کی غلطی" پر محفل ِنقد سنواری تھی۔ میں بغیر آپ کو پڑھے اور بغیر آپ سے ملے محض اس تنقید سے متاثر ہو کر سوء ظن میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اب جو آپ کو پڑھا تو واللہ پڑھتا ہی چلا گیا۔ آپ کے سارے پرانے شمارے بھی مسلسل زیر مطالعہ ہیں اور اللہ گواہ ہے ، کدورت کے سارے بادل چھٹ گئے ہیں۔ بلکہ آپ کی عظمت دل پر نقش ہو گئی ہے۔ کاش ایسی عبقری شخصیت سے میں پہلے ہی استفادہ کر لیتا۔(محمد افضل لادی والا ۔ بمبئی )
۱۱۔مسٹر طارق (کراچی) نے بتایا کہ پاکستان میں الرسالہ بہت مقبول ہورہا ہے ۔ موجودہ حالات کی بنا پر چونکہ وہاں زیادہ تعداد میں الرسالہ نہیں جاسکتا ہے ، اس لیے لوگ ایسا کر رہے ہیں کہ زیر اکس کے ذریعہ ایک شمارہ کی کئی کئی کا پیاں نکالتے ہیں اور اس طرح اس کو حاصل کر کے پڑھتے ہیں۔پھر ایک کاپی کو بھی بے شمار لوگ مہینوں تک پڑھتے رہتے ہیں۔
۱۲۔پاکستان سے ایک صاحب لکھتے ہیں : کافی پہلے ایک دوست کے توسط سے الرسالہ سے واقف ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رسالہ اجتماعیت کا نہیں بلکہ انفرادیت کا قائل ہے ۔ میں نے پہلی مرتبہ الرسالہ پڑھا تو میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ یہ رسالہ ہندستان کے مسلمانوں کو بزدلی کا درس دیتا ہے اور اسے حکومت کے ایماء پر اس لیے شائع کیا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کو ہندؤوں کی غلامی پر ذہنی طور پر آمادہ کر ے۔ اس پہلے تاثر کے بعد میں نے الر سالہ کو دوبارہ نہیں پڑھا۔ ایک دن کتابوں کی ایک دکان پر الرسالہ پر نظر پڑی۔ اس کے بعض مجلے دل کو لگے۔ لہذا خرید لیا اور گھر آکر ایک ہی نشست میں اس کو پڑھ ڈالا ۔ میر ا سابقہ تاثر فوری طور پر زائل ہو گیا۔ اب یہ کیفیت ہے کہ جب تک الرسالہ کا مطالعہ نہ کرلوں چین نہیں آتا ۔ (الیاس اختر انصاری ، لطیف آباد، حیدرآباد، سندھ)
۱۳۔الرسالہ اللہ کے فضل سے نہ صرف دینی، اخلاقی، تعمیری پہلو سے لوگوں کے لیے مفید ثابت ہو رہا ہے ، بلکہ اور بھی کئی پہلوؤں سے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ مسٹرکشن جیونت راؤ پاٹل ( نانڈیر) اور مسٹر راج تیواری (بھوپال) نے بتایا کہ انھوں نے الرسالہ اور اس کی مطبوعات کو اردو میں پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھی ہے۔ محترمہ فرزانہ (حیدر آباد) لکھتی ہیں کہ "ایک انگلش میڈیم کی طالبہ ہونے کے باوجود آج میں اردو زبان اچھی طرح لکھنے اور پڑھنے کے قابل جو ہوئی ہوں وہ آپ کی عنایت اور الرسالہ کی بدولت ہے۔ مجھے دین سے اتنی لگن اور محبت الرسالہ کے مطالعہ سے ہوئی ۔ میں اب پوری طرح مسلمان ہوں ۔ ہر نماز میں آپ کےلیے اور الرسالہ کے لیے دعا کرتی ہوں" ۔
۱۴۔ ایک نئی کتاب جلد ہی چھپنے والی ہے۔ اس کا نام " راہ عمل" ہوگا۔