نیاروس
اے پی کی ایک خبر ٹائمس آف انڈیا (۱۶ مارچ،۱۹۸۹ ،سکشن ۲) کے صفحۂ اول پر چھپی ہے۔ اس کے مطابق تاشقند (سوویت) روس میں خلاف معمول مسلمانوں کا ایک جلوس نکلا ۔ آنسوؤں اور اللہ کبر کے نعروں کے ساتھ کئی ہزار مسلمانوں نے ۱۴ مارچ ۱۹۸۹ کو ساتویں صدی عیسوی کے قرآنی نسخہ کی واپسی پر خوشی منائی اور اس کا خیر مقدم کیا۔ سرکاری طور پر ملحد روس میں اس قسم کا مذہبی جوش شایدہی کبھی دیکھا گیا ہو۔ یہ قرآنی نسخہ وہ ہے جس کو حضرت عثمان نے تیار کرایا تھا۔ کئی سو سال پہلے یہ نسخہ روس کے شہنشاہ زار کو ملا ۔ وہ ان کی راجدھانی سینٹ پیٹرس برگ میں محفوظ رہا۔ ۱۹۱۷ کے بالشویک انقلاب کے بعد وہ تاشقند کے سرکاری میوزیم میں منتقل کر دیا گیا ۔ قرآن کا یہ نسخہ اب تک الماریوں میں بند تھا۔ اب اس کو عوامی زیارت کے لیے کھول دیا گیا ہے (صفحہ ۱۱)
یہ واقعہ علامتی طور پر بتا تا ہے کہ نئے روسی حکمراں گوربا چوف کے بعد کس طرح اشتراکی روس میں مذہبی امور کے لیے نئے آزاد مواقع کھل گئے ہیں۔ روس میں اشتراکی انقلاب (۱۹۱۷ء )کے بعد سے پورے ستر سال تک وہاں مذہبی آزادی کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ مگر اوپری پابندیوں کے نیچے لوگوں کے دلوں میں اور ان کے گھروں میں مذہب بدستور زندہ رہا۔ یہاں تک کہ خود روس کے اشترا کی حکمرانوں کو یہ اعتراف کر نا پڑا کہ مذہب سے لڑنا حقیقت ِواقعہ سے لڑنا ہے۔ اس طرح کی لڑائی میں حقیقت واقعہ تو نہیں بدلتی البتہ لڑنے والے کے حصے میں بے فائدہ ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ چنانچہ انھوں نےمذہب کےمعاملےمیں اپنی پالیسی بدل دی۔
تاہم روسی مسلمان ان نئے مواقع سے صرف اس وقت فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب کہ وہ حکمت اور تدبر کے ساتھ اس کو استعمال کریں۔ اگر انھوں نے غیر حکیمانہ اور غیر دانشمندانہ انداز اختیار کیا تو مواقع بد ستورموجود ہوں گے مگر مسلمان اس کا فائدہ نہ اٹھا سکیں گے۔
ہر آزادی محدود آزادی ہے ۔ خواہ اشتراکی ملک ہو یا جمہوری ملک ، خواہ مسلم ملک ہویا غیرمسلم ملک ، ہر نظام اپنے شہریوں کو محدود آزادی ہی دیتا ہے۔ جو لوگ اس راز کو جانیں ، وہ ہر جگہ کامیاب رہیں گے اور جو لوگ اس راز کو نہ جانیں وہ ہر جگہ ناکام ۔