چیلنج نہ کہ خطره
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے میری ملاقات ایک ہندو ڈاکٹر سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ جب یہ کہا جائے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تو مسلمان بہت غصہ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام اپنی سچائی کے زور پر پھیلا ہے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اس جواب پر خود ہی یقین نہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ آج کل کے مسلمان بات بات پر شور کرتے ہیں کہ" اسلام خطرہ میں ہے "۔
ہندو بھائی نے کہا کہ اسلام کی اصل طاقت اگر اس کا سچا مذہب ہونا ہے تو یہ طاقت تو اب بھی اس کے پاس پوری طرح موجود ہے، پھر اس کو خطرہ کیوں ۔مسلمانوں کا شور وغل ثابت کرتا ہے کہ اسلام کی اصل طاقت تلوار ہے۔ موجودہ زمانے میں چوں کہ اسلام سے یہ طاقت چھن گئی ہے ، اس لیے وہ خطرہ میں پڑ گیا ہے ۔ اگر اسلام کی اصل طاقت سچائی ہوتی تو اس کے خطرہ میں پڑنے کا کوئی سوال نہ تھا۔ کیوں کہ کسی کے پاس اگر سچائی ہے تو وہ ہمیشہ اس کو حاصل رہے گی۔سچائی ایسی چیز نہیں جس کو کوئی شخص کسی سے چھین سکے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام ایک نظریہ ہے۔ کسی نظریہ کے لیے خطرہ کی بات یہ ہوتی ہےکہ وہ نظریاتی طور پر غلط ثابت ہو جائے ۔ اسلام نظریاتی طور پر غلط ثابت نہیں ہوا۔ وہ اپنی نظریاتی صداقت کو مسلسل طور پر تاریخ میں باقی رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے اسلام کو کوئی خطرہ بھی نہیں۔
البتہ اسلام کو چیلنج پیش آتے ہیں اور وہ پیش آتے رہیں گے۔ ماضی میں اسلام کو چیلنج پیش آئے ۔ مثال کے طور پر ، عباسی دور میں فکر ِیونانی کا چیلنج۔ اس وقت کسی نے" اسلام خطرہ میں" کا نعرہ نہیں لگایا ۔ بلکہ علمی سطح پر چیلنج کا جواب دیا۔ موجودہ زمانے میں بھی اسی طرح اسلام کو فکری چیلنج پیش آئے ہیں۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان جدید چیلنج کا جواب دینے کے لیے نا اہل تھے ۔ اس لیے وہ " اسلام خطرہ میں " کا نعرہ لے کر کھڑے ہو گئے ۔ موجودہ صورت حال مسلم رہنماؤں کی رہنمایا نہ حیثیت کے لیے خطرہ تھی۔ مگر انھوں نے اپنی حیثیت کو بچانے کےلیے کہنا شروع کر دیا کہ اسلام خطرہ میں ہے ۔