مفاد کی سیاست
سابق شاہ ایران محمد رضا پہلوی (۱۹۸۰ - ۱۹۱۹) کے آخری دنوں کے حالات پر ایک معلوماتی کتاب شائع ہوئی ہے ۔ اس کا نام یہ ہے :
William Shawcross, The Shah's Last Ride,
Chatto & Windus, London.
ایران کے سیاسی حالات جب شاہ کے لیے بہت زیادہ غیر موافق ہو گئے تو ۱۶ جنوری ۱۹۷۹ کو وہ اپنے مخصوص ہوائی جہاز کے ذریعہ امریکہ روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد وہ مختلف ملکوں میں قیام کی کوشش کرتے رہے ––––– مراکو ، بہاماس ، پنا ما، وغیرہ مگر کسی ملک نے ان کو قبول نہیں کیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہ کے نکلنے کے بعد ایران کے انقلابیوں (صحیح تر لفظ میں تخریب کاروں )نے امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کر کے پچاس سے زیادہ امریکیوں کو یر غمال (Hostage) بنالیا تھا۔ اس انجام سے بچنے کے لیے کوئی ملک ان کو پناہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اسی جلا وطنی کی حالت میں قاہرہ میں ۲۷ جولائی ۱۹۸۰ کو ان کا انتقال ہو گیا۔
شاہ کے عروج کے زمانے میں برطانیہ ان کا بہت بڑا دوست سمجھا جاتا تھا۔ شاہ نے برطانیہ سے درخواست کی کہ وہ ان کو اپنے یہاں داخلہ کی اجازت دیدے۔ مگر بر طانی حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ موجودہ وزیر اعظم برطانیہ مسزمارگریٹ تھیچر اس وقت اپوزیشن میں تھیں۔ اس وقت انھوں نے برطانی حکومت کے انکار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں برطانی باشندہ ہونے پر شرم ہوگی اگر بر طانیہ اپنے دوستوں کا ساتھ نہ دے:
She would be ashamed to be British if the UK
did not stand by its friends.
اس کے جلد ہی بعد مئی ۱۹۷۹ میں برطانیہ میں الکشن ہوا ۔ اس الکشن میں مسزمار گریٹ تھیچر کی پارٹی کامیاب ہوئی اوروہ برطانیہ کی وزیر اعظم بنادی گئیں ۔ اس وقت شاہ اور ان کی ملکہ بہاماس میں تھے ۔ انھوں نے مارگریٹ تھیچر کی جیت پر خوشی منائی ۔ مگر ان کی امیدوں کے خلاف مارگریٹ تھیچر نے دوبارہ انھیں برطانیہ میں داخلہ کی اجازت نہ دی ۔ مصنف کے نزدیک اس کی دو وجہہ تھیں۔ تہران میں برطانی سفارت خانہ کے عملہ کو یر غمال بنانے سے بچانا اور ایران کے ساتھ برطانیہ کے تجارتی مفادات کا تحفظ :
It was partly a question of the security of Britain's Tehran diplomats, partly a matter of UK trading interests.
مارگریٹ تھیچر جب وزیر اعظم نہیں تھیں۔ اس وقت انھوں نے کہا کہ شاہ ایران کو پناہ نہ دینا برطانیہ کے لیے ایک شرم کی بات ہے ۔ مگر یہی مارگریٹ تھیچر جب خود بر طانیہ کی حکمراں بن گئیں تو انھوں نے بھی یہی کیا کہ شاہ ایران کو برطانیہ میں داخلہ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔
بظاہر دونوں باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ مگر باعتبار حقیقت دونوں ایک ہیں۔ دونوں ہی کا اصل محرک ذاتی مفاد ہے۔ مارگریٹ تھیچر جب اپوزیشن میں تھیں تو ان کا مفاد اس میں تھا کہ وہ حکمراں پارٹی کو مطعون کرنے کے لیے شاہ کی حمایت کریں ۔ اس کے بعد جب مارگریٹ تھیچر خود حکمراں بن گئی تو ان کا مفادیہ بن گیا کہ وہ بھی وہی کریں جو ان سے پہلے کی حکمراں جماعت کر رہی تھی۔
بے اصول سیاست کی یہ قسم صرف" کفر پسندوں" کی اجارہ داری نہیں ، وہ یکساں درجہ میں" اسلام پسندوں" کے یہاں بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ۱۹۶۵ میں پاکستان میں صدر کے عہدہ کے لیے الکشن تھا ۔ اس موقع پر وہاں کے اسلام پسندوں نے محمد ایوب خاں کے مقابلے میں مس فاطمہ جناح کو کھڑا کیا۔ اس وقت انھوں نے زور و شور کے ساتھ دعویٰ کیا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز ہے۔ مگر دسمبر ۱۹۸۸ کے الکشن کے بعد جب بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم بن گئیں تو اب یہی اسلام پسند اپنی ساری طاقت یہ ثابت کرنے میں لگائے ہوئے ہیں کہ اسلام میں عورت کو حکمراں بنانا جائز نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا مذہب مفاد پرستی ہے ، غیر مسلموں کابھی اور ان لوگوں کا بھی جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔