سوال و جواب

سوال

قرآن کی ایک آیت ہے: أَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِنْ أُولَئِکُمْ أَمْ لَکُمْ بَرَاءَةٌ فِی الزُّبُرِ (54:43)۔ یعنی کیا تمہارے منکر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لیے آسمانی کتابوں میں معافی لکھ دی گئی ہے۔ اس آیت میں کس چیز کی براءۃ کی طرف اشارہ ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)

جواب

قرآن کی اس آیت میں وقتی ریفرنس کے اعتبار سے قدیم مکہ کے قریش کو خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی گئی ہے۔ اصولی اعتبار سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی گروہ مستثنیٰ گروہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہر ایک کا معاملہ یکساں ہے۔ یعنی ہر ایک کو ایک ہی معیار پر جانچا جائے گا۔ ہر ایک سے ایک ہی اصول کی روشنی میں معاملہ کیا جائے گا۔ نہ پیدائشی اعتبار سے کسی کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہے، اور نہ ایسا ہے کہ قرآن کے سوا جو دوسری آسمانی کتابیں اللہ نے اتاری ہیں، ان میں کسی گروہ کے بارے میں یہ اعلان ہے کہ ان کا کیس ایک مستثنیٰ کیس ہے۔ وہ بھی خدا کے مواخذہ کے قانون کے تحت ہیں، جس طرح دوسرے تمام لوگ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے، ان میں پیغمبر اسلام کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنیٰ قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے، جواس سے پہلے والی قوموں نے کی ، اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔

کسی قوم کا اپنے آپ کو خد اکا محبوب خیال کرلینا سراسر باطل خیال ہے۔ خدا کے یہاں فرد فرد کا حساب ہونا ہے ،نہ کہ قوم قوم کا۔ ہر آدمی جو کچھ کرے گا اسی کے مطابق وہ خدا کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ہر آدمی اللہ کی نظر میں بس ایک انسان ہے، خواہ وہ ایک قوم سے تعلق رکھتا ہو یادوسری قوم سے۔ ہر آدمی کے مستقبل کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا جائے گا کہ امتحان کی دنیا میں اس نے کس قسم کی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ جنت کسی کا قومی وطن نہیں، اور جہنم کسی کا قومی جیل خانہ نہیں۔ اللہ کے فیصلہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے ایسے افراد اٹھاتا ہے، جو لوگوں کو زندگی کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ ان کو جہنم آگاہ کریں اور جنت کی خوش خبری دیں۔ خدا کے اسی بشیر ونذیر کا ساتھ دے کر آدمی خدا کو پاتا ہے، نہ کہ کسی اور طریقے سے۔

سوال

قرآن کی ایک آیت ہے:وَإِنْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ (4:159)۔ یعنی اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے۔ اس آیت میں بِہِ ضمیر کا مرجع کس کی طرف ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، ممبئی)

جواب

مذکورہ آیت میں پہلی ضمیر کا مرجع قرآن ( کی بیان کردہ حقیقت) ہے، اور دوسری ضمیر کا مرجع افراد اہل کتاب ۔ اس لحاظ سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب کا ہر فرد اپنی موت سے پہلے اس معاملے میں قرآن کی بیان کردہ حقیقت کو یقین کے ساتھ مان لیتا ہے۔ یعنی منصوبۂ تخلیق کی حقیقت کو مان لیتا ہے، اگرچہ وہ اسلام اور قرآن کا نام نہ لے۔ اصل یہ ہے کہ انسان اپنی آخری عمر میں پہنچ کر مین کٹ ٹوسائز (man cut to size)بن جاتا ہے۔ اس وقت وہ یہ ریلائز (realize) کرنے لگتا ہے کہ وہ اس دنیا میں عاجز مطلق ہے۔ یہ واقعہ مخصوص طور پر اہلِ کتاب سے متعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عام قانون ہے جس کا اطلاق اہل کتاب پر بھی ہوتا ہے۔

عبد اللہ بن عباس (وفات 68ھ)کے شاگرد عکرمہ تابعی (وفات 105ھ)اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے (لَا یَمُوتُ النَّصْرَانِیُّ وَلَا الْیَہُودِیُّ حَتَّى یُؤْمِنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّہُ علیہ وسلّم ) تفسیر طبری،جلد9، صفحہ386۔

یہود و نصاری کے پاس آسمانی علم تھا ایسے لوگ یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتے تھے کہ پیغمبر عربی کی دعوت خالص خدائی دعوت ہے۔ مگر پیغمبر عربی کو ماننا اور ان کے مشن میں اپنا مال اور اپنی زندگی لگانا ان کو دنیوی مصلحتوں کے خلاف نظر آتا تھا۔ اس بنا پر انہوں نے آپ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ مگر جب موت آدمی کے سامنے آتی ہے تو اس قسم کی تمام مصلحتیں باطل ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں۔ اس وقت آدمی کے ذہن سے تمام مصنوعی پردے ہٹ جاتے ہیں اور حق اپنی کھلی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ موت کے دروازے پر پہنچ کر آدمی اس چیز کا اقرار کرلیتا ہے جس کو وہ موت سے پہلے ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ مگر اس وقت کے اقرار کی اللہ کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔

یہ بات جو یہاں اہلِ کتاب کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہر انسان کی نسبت سے ہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق، ہر انسان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنی موت سے کچھ لمحہ پہلے ذہنی اعتبار سےموجودہ دنیا سے منقطع ہوجا تا ہے، اس کو آخرت کی حقیقتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ وقت وہی ہوتا ہے جس کو حدیث میں غرغرہ (مسند احمد، حدیث نمبر6160)کہا گیا ہے۔ یہی واقعہ ہر اہلِ کتاب کے ساتھ موت کے وقت پیش آئے گا۔ یعنی جس حقیقت کو وہ موت سے پہلے کے دور میں ماننے کے لیے تیار نہ تھا، موت کے وقت ، جب کہ موت کا فرشتہ اس کے پاس آچکا ہوگا، اس پر حقیقتِ واقعہ منکشف ہوجائے گا۔ اگر چہ وہ اس انکشاف کا اعلان دنیا والوں کے سامنے نہ کرسکےگا ، لیکن خود اپنے علم کے مطابق، وہ اس کو بخوبی طور پر جان لے گا۔

یہودیوں میں چند لوگ، عبداللہ بن سلام وغیرہ، پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور آپ کا ساتھ دیا۔ جو لوگ دین میں انسانی اضافوں سے گزر کر اصل آسمانی دین سے آشنا ہوتے ہیں، جو عصبیت اور تقلید اور مفاد پرستی کی ذہنیت سے آزاد ہوتے ہیں ان کو سچائی سمجھنے اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ وہ ہر قسم کے ذہنی خول سے باہر آ کر سچائی کو دیکھ لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی جنتوں میں داخل کیے جائیں گے۔

سوال

میرا تعلق پاکستان سے ہے، میرا سوال یہ ہے کہ میں شادی شدہ ہوں، اور اپنے سسرال میں رہتی ہوں۔ میری شادی شدہ زندگی میں کچھ مسائل ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب سسرال کا کوئی فرد آپ کے لیے پرابلم پرسن (problem person) بن جائے، وہ مختلف طریقے سے آپ کو پریشان کرنے لگے، لیکن آپ کا شوہر اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہ کرے تو ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے۔ براہِ کرم آپ اس کا جواب دیں۔ (مز نادیہ اسلم)

جواب

چوں کہ آپ نے کوئی متعین مثال نہیں دی ہے، جس سے معاملے کی نوعیت سمجھ میں آئے۔ اس لیے میں جنرل صورتِ حال کے مطابق، اس کا جواب دوں گا۔ اس قسم کے مسئلے کا حل میرے تجربے کے مطابق، صرف ایک ہے، اور وہ ہے، یک طرفہ صبر۔ اس فارمولے کے سوا کوئی اور فارمولا اس معاملے میں قابلِ عمل نہیں ہے۔ شادی شدہ زندگی کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ شادی عام طور پر نان بلڈ ریلیشن شپ (non-blood relationship)کے درمیان ہوتی ہے۔

شوہر کو اپنے خونی رشتے داروں سے ایموشنل تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح بیوی کو بھی اپنے خونی رشتہ داروں سے ایموشنل تعلق ہوتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد شوہر اور بیوی، جو پہلے الگ الگ تھے، یکجا ہوکر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ یکجائی دو متضادتعلق کے درمیان ہوتی ہے۔ اس بنا پر شادی کے بعد دونوں فریقین کے درمیان اختلافات کا ہونا بالکل فطری ہے۔

اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ دونوں فریق اس فطری حقیقت کو جانیں، اور اپنے آپ کو پہلے سے اس صورت ِ حال کے لیے تیار کرلیں، جس کو میں دو متضاد کے درمیان ہم آہنگی کہوں گا۔دو متضاد کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا فارمولا ایک لفظ میں صرف ایڈجسٹ منٹ ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا اور کوئی قابلِ عمل حل نہیں۔ آپ کے لیے یہ مشورہ ہے کہ آپ میری کتاب خاندانی زندگی (انگریزی ورزن :Family Life)کا مطالعہ کریں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom