ایک ملاقات

[ ماہنامہ صراط مستقیم انٹرنیشنل، پاکستان کے لیے دیا گیا مولانا وحید الدین خاں صاحب کا انٹرویو]
س:تاریخ پیدائش اور خاندانی پسِ منظر؟

ج: میری پیدائش سرکاری ریکارڈ کے مطابق، یکم جنوری 1925 کو اعظم گڑھ (اترپردیش )کے ایک گاؤں بڈھریا میں ہوئی۔میرے جد اعلیٰ کا نام حسن خاں تھا۔ وہ ریاست سوات (Swat)کے رہنے والے تھے۔ سوات چترال میں واقع ہے، جو اُس زمانہ میں افغانستان کا حصہ تھا۔ اب یہ پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ حسن خاں کے ایک اور بھائی تھے جن کا نام حسین خاں تھا۔ دونوں بھائیوں کے درمیان کسی بات پر نزاع پیدا ہو گیا۔ چنانچہ حسن خاں اپنے بھائی حسین خاں سے نہ صرف علیٰحدہ ہو گئے، بلکہ اُنھوں نے سوات سے ہجرت بھی کر ڈالی، اورانڈیا کے ایک صوبہ اترپردیش کے علاقے جون پور میں پہنچ گئے۔ اس وقت یہاں سلطان خاں کی حکومت تھی۔ پہلے ہمارا خاندان جون پور میں بسا، پھر کچھ لوگ اعظم گڑھ کے علاقے میں جاکر بس گئے۔ یہیں میری پیدائش ہوئی۔

س:تعلیمی مراحل؟

ج:بچپن میں میرا حال یہ تھا کہ اکثر میں گھر سے نکل کر کھیتوں اور باغوں کی طرف چلا جا تا تھا۔ گاؤں کے باہر ندی پر ایک پل تھا ۔ میں وہاں جا کر بیٹھ جا تا، اور دیر تک دریا کی روانی اور کائنات کے مناظر کو دیکھتا رہتا تھا۔فطرت کو دیکھنا میرا پسندیدہ کام تھا۔ کچھ شعور ہوا تو ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک مکتب میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد 1938 میں عربی تعلیم کے لیے میں نے مدرسۃ الاصلاح( سرائے میر، اعظم گڑھ) میں داخلہ لیا۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے دیکھا کہ میں سماج میں ارریلیونٹ ہوں ، یعنی میری تعلیم اس لائق نہیں جو مجھے موجودہ سماج میں مفید بناسکےتو میں نے دوبارہ تفاسیر و حدیث وغیرہ کا مطالعہ کیا ، انگریزی زبان سیکھی، پھر سیکولر علوم اورسائنس وغیرہ کا مطالعہ کیا۔ اس طرح میں نے زمانی شعور حاصل کیا، اور پورے یقین کے ساتھ اسلام کو از سرنو دریافت کیا۔

س:فہم قرآن کے بنیادی اصول؟

ج:ڈی کنڈیشنڈ مائنڈ کے ساتھ قرآن میں تدبر کرنا، اور تقوی کے ساتھ اللہ سے دعا کرنا۔

س:کھانے اور پہننے میں کیا پسند ہے؟

ج: لائف اسٹائل کےمعاملے میں میرا اصول یہ ہے— سادہ زندگی، اونچی سوچ:

simple living, high thinking

س:ہندوستان میں اسلام کی دعوت اور اس پر عمل کتنا دشوار ہے؟

ج: آج کے دور میں کسی بھی ملک میں دعوت کا کام مشکل نہیں ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ پیس فل انداز میں حکمت کے ساتھ دعوت کا کام کیا جائے۔

س:ایک داعی کو کن اَوصاف سے متصف ہونا چاہیے؟

ج: داعی کے دل میں مدعو کے لیے مکمل طور پر خیرخواہی (نصح) کا جذبہ ہونا چاہیے۔مدعو کی کوئی بھی اشتعال انگیز بات داعی کو خیر خواہی کے جذبے سے دور نہ کرے۔

س:حقوق مسلم کےلیے آپ کی جدو جہد کی چند جھلکیاں؟

ج: میں نے مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ حقوق طلبی کی مہم ترک کریں، اور لوگوں کے لیے نافع (giver) بن کر زندگی گزاریں۔ حدیث کے الفاظ میں ،وہ الید العلیا بنیں، الید السفلیٰ نہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1427)۔یعنی وہ دینے والے (giver) بنیں، نہ کہ لینے والے۔

س:غیر مسلم کس کس رکاوٹ کی وجہ سے نعمتِ اسلام سے محروم ہیں؟

ج:دعوت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود مسلمان ہیں۔ مسلم مفکرین کی یہ غلطی ہے کہ انھوں نے سیاسی میدان میں مغلوب ہونے کی وجہ سے جدید فکر یا جدید تہذیب کو اسلام کا مخالف سمجھ لیا۔ اس بنا پر ان کے اور جدید ذہن کے درمیان غیر ضروری ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے۔چنانچہ موجودہ دور میں دعوت کا کام نارمل انداز میں جاری نہیں ہے۔میری ان کو نصیحت ہے کہ وہ جدید فکر کے خلاف اپنی منفی مہم بند کردیں۔ اس کے بعد غیر مسلموں کے درمیان دعوت کا کام بالکل فطری انداز میں جاری ہوجائے گا۔

س:فرقہ وارانہ تشدد (مذہبی ، مسلکی، سیاسی، لسانی وغیرہ) کے اسباب و وجوہات ؟

ج:اختلاف کو مینج کرنے کا فقدان۔ اختلاف (difference) کے معاملے میں ہمیشہ دو طریقے ہوتے ہیں— غلو کا طریقہ اور ٹالرنس کا طریقہ۔ غلو کا طریقہ یہ ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مختلف مسالک فکر کے درمیان ایک ہی طریقہ صحیح ہے، دوسرے تمام طریقے غلط ہیں، ان کو ختم ہوجانا چاہیے۔اس کے برعکس،دوسرا طریقہ رواداری یا وسعتِ نظری کا طریقہ ہے، یعنی یہ سمجھنا کہ جو اختلاف ہے، وہ تنوع (diversity)کا معاملہ ہے۔ جس کا عملی فارمولا اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— ایک کی پیروی ، سب کا احترام :

follow one, respect all

س: فرقہ وارانہ تشدد کی فضا کو ختم کرنے کے لیے کون کیا کردار ادا کرے؟

ج:نفرت کی فضا کو ختم کرنے کا صرف ایک اصول ہے، یک طرفہ طور پر صلح کرلینا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔

س:پوری دنیا میں ’’مسلمان ہی مظلوم‘‘ کیوں ہیں؟

ج:مسلمان مظلوم نہیں ہیں، وہ اپنی غیر حکیمانہ پلاننگ کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کی پریکٹکل وزڈم کی بنیاد پر ری پلاننگ کریں۔

س: دینی مدارس کی اصلاح کے لیے کیا تجاویز دیں گے؟

ج:حدیث کے الفاظ میں، وہ بصیر زمانہ بنیں(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ بصیر زمانہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ مدارس زمانے کے مطابق، اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی (right planning) کر یں۔ زمانے سے باخبری کے بغیر اسلامی عمل کی درست منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس بنا پر اہلِ مدارس کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات سے پوری طرح باخبر ہوں، ورنہ ان کی سرگرمیاں بے نتیجہ ہوکر رہ جائیں گی۔مثلاًہم ایسے زمانے میں ہیں جو امن کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں صرف پر امن منصوبہ بندی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی آج کے زمانے سے بے خبر ہو، اور وہ امن کے زمانے میں جنگ کی تیاری کرے، اور پھر اپنے زمانے کے لوگوں کے خلاف لڑائی چھیڑ دے تو بلاشبہ اس کا منصوبہ غلط ہوجائے گا۔اپنے جان و مال کو قربان کرنے کے باوجود وہ کوئی مثبت نتیجہ (positive result) حاصل نہ کرسکے گا۔ مدارس کے تعلق سے مزید تفصیل میری کتاب "علما ءاور دورِ جدید"، اور" دین و شریعت" میں دیکھی جاسکتی ہے۔

س: آپ بصیرِ زمانہ بننے پر بہت زور دیتے ہیں، کیا آپ سے پہلے کسی عالم نے ایسا کہا ہے؟

ج: قدیم علما کے یہاں اس کی مثالیں ملتی ہے۔ مثلاً وہب بن منبہ (وفات 114ھ) نے کہا ہے کہ آل داؤد کی حکمتوں میں ایک یہ ہے : حَقٌّ عَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ عَارِفًا بِزَمَانِہ ِ(الصمت وآداب اللسان لابن أبی الدنیا، اثر نمبر 31)۔ یعنی عقلمند انسان(wise person) پر لازم ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ اسی طرح ابن الحاجب الکردی المالکی (وفات646ھ) کا قول ہے: وَمِنْ شِیَمِ الْعَالِمِ أَنْ یَکُونَ عَارِفاً بِزَمَانِہِ (جامع الأمہات لابن الحاجب ، صفحہ575)۔ یعنی عالم کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ یہی بات ابن عبد البر (وفات 463ھ) نے بھی اپنی کتاب الکافی فی فقہ أہل المدینة (جلد2،صفحہ1132)میں لکھی ہے۔ابن کثیر (وفات774ھ) نےاپنے استاد برہان الدین الفزاری کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: عَارِفًا بِزَمَانِہِ (البدایۃ والنہایۃ، جلد14، صفحہ 167)۔ یعنی وہ اپنے زمانے سے باخبر عالم تھے۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب درالمختار (صفحہ 95)میں اس تعلق سےایک بامعنی قول ان الفاظ میں آیاہے: مَنْ لَمْ یَکُنْ عَالِمًا بِأَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ(جو اپنے زمانے کا عالم نہ ہو، وہ جاہل ہے)۔مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین شامی (وفات 1889)نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں لکھاہے: وَمَنْ لَمْ یَدْرِ بِعُرْفِ أَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ (الرد المختار، جلد3، صفحہ724)۔یعنی جو اپنے زمانے والوں کے ٹریڈیشن سے بے خبر ہو، وہ جاہل ہے۔ تو میں نے جو بات کہی ہے ، وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ میں نے جدید اسلوب میں وہی بات دہرائی ہے، جو قدیم علما کہتے رہے ہیں۔

س:96سالہ زندگی کے تجربات کی روشنی میں ہم جاننا چاہیں گے کہ ایک فرد کو کن اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے؟

ج:پرابلم کو اگنور کرنا اورمواقع کو دریافت کرکے منصوبہ بند طریقے سے اس کو اویل کرنا۔

س:کبھی پاکستان کا دورہ کیا… اگر نہیں تو کیا خواہش ہے؟

ج:میں نے پاکستان کا تین مرتبہ سفر کیا ہے۔ ان میں ایک سفر تقسیم سے پہلے 1945 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد دوسرا سفر 1971 میں ہوا، پھر تیسرا سفر 1985 میں ہوا۔ ان کی تفصیل میری کتاب سفر نامہ غیر ملکی اسفار جلد اول میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً میں پاکستان کے تعلق سے مضامین بھی لکھتا رہا ہوں۔ اس وقت ہمارے مشن سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیم بھی پاکستان میں موجود ہے، جو وہاں ہمارے دعوتی مشن کو یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔

س: اُمت مسلمہ کو نشاۃ ثانیہ کے سفر میں کس مرحلہ میں دیکھتے ہیں؟

ج:مسلم مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ جدید فکر (modern thought) ان کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ مگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس چیز کو جدید فکر کہا جاتا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام مخالف نہیں ہے، وہ عین موافقِ اسلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ذہن اور جدید تہذیب پوری کی پوری اسلام کے موافق ہے۔ حقیقت کےاعتبار سے دیکھیے تو اسلام اور جدید فکر میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ فکرِ جدید کو بدلنے کا نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی سوچ کو بدلنے کا ہے۔ اس کے بعد کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ مسلمانوں کا مزاج ہے ہر نئی چیز کے خلاف ہوجانا۔ مثلاً جب کلونیلزم کا دور آیا تو وہ اس کے خلاف ہوگئے۔ اسی مزاج نے اصل مسئلہ پیدا کیا ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنا ہے۔

س:امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار اور مقام کیسے حاصل کر سکتی ہے؟

ج:ان کو پانچ پوائنٹ فارمولا اختیار کرنا چاہیے۔وہ پانچ پوائنٹ فارمولادرج ذیل ہے:

(1) معرفتِ خداوندی (realization of God)

(2) مثبت سوچ (positive thinking)

(3) دعوت الی اللہ

(4)نفرت (hate) کا کلی خاتمہ، منفی سوچ کا کلی خاتمہ، مغرب کو اسلام کا دشمن سمجھنے کے بجائے اس کو اسلام مؤید سمجھنا۔

(5) سیاسی ٹارگٹ کے بجائے آخرت رخی زندگی کواپنا ٹارگٹ بنانا۔

س:اہل ِپاکستان کے نام…محبت بھرا پیغام؟

ج:وہ قرآن کی اس آیت کواپنے لیے رہنما آیت کی حیثیت سے اختیار کرلیں:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔

اس آیت کے مطابق، کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا ابدی دشمن نہیں ہے، پیدائشی طور پر ہر انسان امکانی دوست (potential friend) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں اہل پاکستا ن کی منصوبہ بندی یہ ہونا چاہیے کہ وہ بالقوۃ (potential) دوست کو ، قرآن کی رہنمائی کے مطابق، بالفعل (actual) دوست بنانے کا طریقہ اختیار کرے۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی (وفات 1810)اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں : وقیل معناہ لا تستوى الحسنة فى جزئیاتہا ولا تستوى السیّئة فى جزئیاتہا بل بعضہا فوق بعض فى الحسن والسوء فاذا اعترضک من بعض أعدائک سیّئة فادفعہا بأحسن الحسنات کما لو أساء إلیک رجل فالحسنة ان تعفو عنہ والتی احسن ان تحسن الیہ (تفسیر المظہری، جلد8، صفحہ 296)۔ یعنی بعض علما نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نیکیاں سب ایک درجہ کی نہیں ہوتی ہیں، اسی طرح برائیوں کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی دشمن کوئی بدی کرے تو اس کے مقابلہ میں بہترین اعلیٰ درجہ کی نیکی سے کام کیا جائے ۔مثلاً کسی نے اگر تمہارے ساتھ بدسلوکی کی ہو تو درگذر کرنا چاہیے ۔ لیکن اعلی نیکی یہ ہے کہ برائی کے بدلے دشمن سے بہترین سلوک کیا جائے — بد اخلاقی کے جواب میں حسن اخلاق بلاشبہ سب سے اعلیٰ اخلاق ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom