ہاجرہ کلچر

فرنچ رائٹر الفانسو دی لامارٹین (Alphonse de Lamartine, 1790-1869) کا مشہور قول ہے کہ ہر بڑے آغاز سے پہلے ایک عورت کا رول ہے:

There is a woman at the beginning of all great things

تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ قول سب سے زیادہ حضرت ہاجرہ کے اوپر صادق آتا ہے۔ حضرت ہاجرہ سے پہلے دنیا میں نیچر ورشپ کا دور تھا۔حضرت ہاجرہ کے ذریعے انسانی تاریخ میں ایک پراسس جاری کیا گیا جس کا نقطۂ انتہا (culmination) پیغمبر اسلام اور اصحابِ رسول کا ظہور تھا، جن کے ذریعے دنیا میں بتدریج سائنٹفک تھنکنگ وجود میں آئی۔اس کا اعتراف فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے ان الفاظ میں کیا ہےکہ اسلام نے زمین کا نقشہ بدل دیا، تاریخ کے روایتی نظام کو ختم کردیا گیا:

(Islam) changed the face of the Globe...the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne, A History of Europe, London, 1958, p 46)

اصل یہ ہے کہ آج ہم جن سائنسی دریافتوں کو استعمال کررہے ہیں، وہ نیچر(فطرت) میں ہمیشہ سے موجود تھی۔مگر اس کو ایکچولائز (actualize) کرنے کے لیے ضروری تھا کہ نیچر میں چھپے ہوئے فطرت کے خزانوں کو بذریعہ تحقیق (investigation) دریافت کیا جائے۔ قدیم زمانے میں نیچرورشپ کے مزاج کی بنا پر انسان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ نیچر کی تحقیق کرے، اور نیچر میں چھپے ہوئے خزانے کو دریافت کرکے ٹکنالوجی اور صنعت کے دور کو دنیا میں لائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ جس چیز کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنائے ہوئے ہوں، اس کو آپ تحقیق کا موضوع (object of investigation) نہیں بنا سکتے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر مقدس چیزوں سے چھیڑ چھاڑ کی جائے تو اس پر بلا نازل ہوگی۔

خالق نے دنیا کے اندر یہ طریقہ رکھا تھا کہ اس نے کچھ چیزوں کو زمین کے اوپر براہ راست طور پر پیدا کیا۔ مثلاً حیوانی طاقت۔ اسی کے ساتھ کچھ اور چیزیں نیچر کے اندر چھپا کررکھ دیں، مثلاً بجلی اور کمیونی کیشن اور کمپیوٹر ،وغیرہ۔ برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975) نے کہا ہے کہ نیچرورشپ کی بنا پر انسان نے کبھی نیچر کو تحقیق کا موضوع بنانے کی طرف توجہ نہیں دی۔ قدیم زمانے میں نیچر ورشپ اتنی عام تھی کہ پیدا ہونے والے لوگ نیچر ورشپ کے کلچر میں کنڈیشنڈ ہوجاتے تھے۔
اب ضرورت تھی کہ ایک نسل ایسی پیدا کی جائے، جو نیچر ورشپ کی کنڈیشننگ سے بچی ہوئی ہو۔ ایک نئی قوم جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔اس مقصد کے لیے پیغمبر ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ کو عرب کے صحرا (
desert)میں آباد کیا۔ اس طرح ایک خاتون ہاجرہ کی قربانی سے ایک نئی نسل پیدا ہوئی، جو نیچرورشپ کی کنڈیشننگ سے بچی ہوئی تھی۔یہاں تک کہ ساتویں صدی عیسوی میں اسی نسل میں رسول اور اصحابِ رسول پیدا ہوئے۔ یہ اہل توحید تھے، وہ نیچر ورشپ کرنے والے نہیں تھے۔پھران کو دنیا میں غالب قوم کی حیثیت حاصل ہوگئی۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ نیچر کو موضوعِ تحقیق بنایا گیا، جو اَب تک انسان کے لیے صرف موضوعِ پرستش بنی ہوئی تھی۔ یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح مغلوب ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔(تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب: اسلام دورِ جدید کا خالق)

لیکن دوبارہ ایسا ہوا ہے کہ ٹکنالوجی کی دریافت کے نتیجے میں مواقع بہت زیادہ کھل گئے ہیں۔مادی فائدے کے اعتبار سے امکانات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ ہر آدمی تک اس کی رسائی ہو گئی ہے۔ اب ہر آدمی بڑی بڑی ترقی کا خواب دیکھتا ہے، اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فتنے نے ہر آدمی کو مادہ پرست بنادیا ہے۔ موجودہ دور میں خواتین کو ایک نیا رول ادا کرنا ہے۔ وہ یہ کہ نیچر ورشپ سے آزاد ہوکر انسان مادہ پرستی کی طرف چلا گیا، اب وقت آگیا ہے کہ خواتین ایک ایسی نسل تیار کریں، جو دنیا کو مادہ پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لے جائے۔ یہ دوسرا دور عملا ًشروع ہوچکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خواتین اس کو تکمیل تک پہنچائیں گی، اور دنیا کو مادہ پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔
 

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom