عافیت کا راز
پر عافیت زندگی کا راز صرف ایک ہے— آدمی حقیقت پسند (realist) بن جائے۔ اس معاملے میں یہی ایک ورکیبل فارمولا (workable formula)ہے، دوسرا کوئی فارمولا ورکیبل ہی نہیں۔آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ زندگی کے معاملے میں کچھ امیدیں قائم کرلیتا ہے، کبھی دنیا سے اور کبھی اپنے تعلق والوں سے اورکبھی سماج سے۔ یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو وہ اپنے اندر شکایت کا مزاج بنا لیتا ہے۔ یہ معاملہ حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
ہمارے یہاں ایک بزرگ تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بل تو اپنا بل۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی زندگی کا حقیقت پسندانہ فارمولا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طاقت سے جو کچھ کرسکے اس پر بھروسہ کرے۔ جو چیز اس کی ذاتی طاقت سے باہر ہو، اس پر اپنی دیوار کھڑی نہ کرے۔ اسی حقیقت کو دریافت کرنے کا نام پر عافیت زندگی ہے۔ یہ اصول خاندانی زندگی کے لیے بھی ہے، اور سماجی زندگی کے لیے بھی، حتی کہ قومی زندگی کے لیے بھی۔ اگرچہ کلی معنوں میں حقیقت پسند بننا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن یہ تو ممکن ہے کہ جب آدمی کے اندازے پورے نہ ہوں، تو وہ برداشت کا طریقہ اختیار کرے، وہ شکایت کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
جب آدمی کسی کے ساتھ کوئی معاملہ کرتا ہے تو وہ کچھ امیدوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مشہور مثل کے مطابق عمل کرے— نیکی کر دریا میں ڈال۔ اگر آپ کسی سے کوئی اچھا سلوک کریں، تو تقریباً ننانوے فیصد کیسوں میں فریق ثانی آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اترے گا۔ اس لیے عافیت کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے میں آدمی یہ اصول اختیار کرے کہ یا تو وہ کسی کے ساتھ کوئی سلوک ہی نہ کرےِ ، یا وہ ایسا کرے کہ سلوک کرتے ہی اس کو بھلادے۔
ایسا انسان دراصل صابر انسان ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کا مزاج ہو، وہ کریم انسان ہوگا، یعنی شریف اور سنجیدہ انسان ، وہ اعلیٰ سوچ کا مالک ہوگا، وہ بدلہ لینے کے بجائے معاف کرنے کو بہتر سمجھے گا، وہ ردعمل (reaction) کی نفسیات سے خالی ہوگا۔