خواتین کا رول
قدیم زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیوی کا رول یہ ہے کہ وہ گھر کو سنبھالے، اور بچوں کی تربیت کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں بیوی کا رول بدل گیا ہے۔ اب بیوی کا ایک اہم رول یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کی ارننگ ممبر (earning member) بنے۔ وہ معاشی اعتبار سے اپنے شوہر کی معاون بنے۔ اس کا اشارہ ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں ملتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَیَأْتِیَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَنْفَعُ فِیہِ إِلَّا الدِّینَارُ وَالدِّرْہَمُ(مسند احمد، حدیث نمبر 17201) یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: لوگوں پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا، جس میں دینار اور درہم ہی فائدہ دے گا۔
اس حدیث میں غالباً یہ اشارہ ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ عورت کو اپنے شوہر کے لیے معاشی مددگار بننا پڑے گا۔ موجودہ زمانہ بظاہر یہی زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں زندگی گزارنے کے لیے مال کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ عورتوں کے لیے کمائی کے نئے مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ مثلا ٹیچنگ کے میدان میں عورتوں کو بہت آسانی سے باعزت کام مل جاتاہے۔ دین دار مسلمانوں کو اس امکان سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
خواتین کے معاملے میں اگر یہ تعلیمی شعور موجود ہو، اور بچپن سے ان کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جائے تو بہت آسانی سے ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ شادی کی عمر تک بی ایڈ اور ایم ایڈ بن چکی ہوں، یا کوئی اور پروفیشنل ڈگری حاصل کرچکی ہوں۔ اس معاملے میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں۔ والدین کی زیادہ توجہ دینی تعلیم کے لیے ہوتی ہے، لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ دینی تعلیم کو گھریلو تعلیم کا حصہ سمجھا جائے، اور ڈگری والی تعلیم کو پروفیشنل تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے۔ تاریخ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اسلام کے دورِ اول میں صحابیات معاشی کام انجام دے کر اپنے شوہروں کی مدد کرتی تھیں۔مثلاً ام المؤمنین خدیجہ، عبد اللہ بن مسعود کی بیوی زینب ، وغیرہ۔