فیمینزم اور دعوت
قدیم زمانے سے عورتوں کے تعلق سے یہ رواج تھا کہ ان کو دبا کر رکھا جاتا تھا۔ موجودہ زمانے میں ، انیسویں صدی سے حقوقِ نسواں کی تحریک شروع ہوئی، جس کو فیمینزم (feminism) کا نام دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ عورتوں کو سماجی مساوات اور قانونی تحفّظ فراہم کرنا۔ اس میں مساوات، حقِ میراث، آزادیٔ رائے، خودکفیلی، آزاد خیالی، گھریلو تشدد سےتحفظ وغیرہ شامل ہیں ۔
حقوقِ نسواںکی تحریک ابتدا میں محدود مطالبات کے لیے چلی تھی، لیکن بالآخر وہ خواتین کے عمومی آزادی کی تحریک بن گئی۔ اب جو آزادیٔ نسواں کا دور آیا تو عورتوں کو لگا کہ ہمارے لیے بھی پوری آزادی کے ساتھ کام کا موقع پیدا ہوا ہے۔ اس سے ایک ماحول بنا۔ اس ماحول کو عام طور پر مسلمانوں نے پسندیدگی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ حالاں کہ اس تحریک میں بظاہر نقصان ہے تو اس میں فائدے کا پہلو بھی موجود ہے۔ آزادیٔ نسواں کے اس ماحول سے ہماری ٹیم کے لوگ بھی فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ہمارے دعوتی مشن کو اس سے فائدہ مل رہا ہے۔ مثلاً دہلی میں ایک پروگرام میں ہماری ٹیم شرکت کرنے گئی، اور ساتھ میں ترجمۂ قرآن بھی لے گئی تاکہ وہ وہاں اس کو لوگوں کے درمیان تقسیم کرے۔ تاکہ لوگ براہ راست خدا کے پیغام کو پڑھیں۔ اس پروگرام میں انڈیا کے ایک سینٹرل منسٹر بھی آئے ہوئے تھے۔ جب وہ باہر نکلے تو اس کے ارد گرد بہت بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔ اس موقع پر ہماری ٹیم کے لوگوں کے لیے ان کو قرآن کا ترجمہ دینے کی بظاہرکوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس وقت ایک خاتون، مس سعدیہ خان دوڑ کر ان کے پاس گئیں، اور زور سے آواز لگایا، سر! یہ سن کر وہ منسٹر جُو اَب کار میں بیٹھنے جارہے تھے، ایک خاتون کی آواز سن کو کر رک گئے، اور شکریہ کے ساتھ ان سے قرآن کا ترجمہ لیا، اور کار میں سوار ہوکر چلے گئے۔
یہ دعوتی موقع صرف ایک خاتون کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ جدید دور میں ایک نارم (norm)بنا ہے، یعنی لیڈیز فرسٹ ۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرے تو اس کو غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ اسی نارم (norm)کے تحت وہ منسٹر رک گیا ، اور ایک خاتون سےترجمۂ قرآن لیا، جس صنف کو قدیم زمانے میں بے حقیقت سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں یہ مانا جاتا ہے کہ عورتوں کو ایمپاور کرنا کسی بھی ملک کے تمام گوشوں کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے:
Women’s empowerment is the most crucial point to be noted for the overall development of a country.
اسی طرح ایک خاتون کا واقعہ ہے، جب وہ شادی کے بعد اپنے سسرال گئیں تو ان کو وہاں بہت ستایا گیا۔ اس سے ان کو اپنے بارے میں یہ تصور پیدا ہوگیا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتی ہیں ۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے ملاقات کی، اور ان کو یہ سمجھایا کہ وہ دعوت الی اللہ کا کام کرسکتی ہیں۔ دھیرے دھیرے ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ وہ دعوت کا کام کرسکتی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے سی پی ایس کی لیڈیز کے ساتھ مل کر دعوتی پلیٹ فارم قائم کیا۔ اس گروپ میں تمام دنیا کی سی پی ایس لیڈیز موجود ہیں، وہ دعوتی کام کو نئے انداز میں اور بہت ہی منظم طریقے سے کررہی ہیں۔
ایک اورخاتون اپنا تاثر ان الفاظ میں لکھتی ہیں: مجھے ہر بار یہ ریلائز ہوتا ہے کہ میں نےاس (سی پی ایس لیڈیز) گروپ کو جوائن کرکے اپنے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کیوں کہ اس سے پہلے میں بہت زیادہ اسٹریس میں تھی، اور سائکالوجسٹ سے کنسلٹ کرنا چاہتی تھی، مگر یہ گروپ میرے لیے اللہ کی طرف سے ایک رہنمائی ہے۔ اس سے میں بہت کچھ سیکھ رہی ہوں، میرا اسٹریس بھی ختم ہوگیا ہے، اور امید کرتی ہوں کہ میری پرسنالٹی نکھرے گی، ان شاء اللہ ( مز راضیہ خان، غازی آباد) ۔
فیمینزم کے دور میں عورتوں کے ذریعے دعوت کا کام اس حدیث کا وسیع تر انطباق ہے، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کی ہے: لَتَرَیَنَّ الظَّعِینَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِیرَةِ، حَتَّى تَطُوفَ بِالکَعْبَةِ لاَ تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللّہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3595)۔ یعنی تم ضرور دیکھو گے کہ اونٹ پر سوار ایک عورت حیرہ سے (تنہا) آئے گی، یہاں تک کہ کعبہ کا طواف کرے گی، اس کو صرف اللہ کا ڈر ہوگا۔ اس واقعے میں سبق ہے کہ مسلمان اپنے ماضی (past)کی بنیاد پر اپنی خواتین کومیدانِ عمل سے دور نہ رکھیں، بلکہ حال (present) میں خواتین کےلیے موجود عملی مواقع کی بنیاد پران کے لیے دینی اور دعوتی عمل کی پلاننگ کریں۔