صدیقی اسپرٹ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد11 ہجری میں مدینہ میں ابو بکر صدیق کی خلافت کا واقعہ ہے۔ اس وقت عرب کے کچھ قبائل نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا۔ یہ سادہ طور پر منعِ زکاۃ کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ اسٹیٹ سے بغاوت کا کیس تھا۔اس لیےخلیفہ اَوّل ابوبکر صدیق نے بہت شدید انداز میں اس کیس کو ہینڈل کیا۔چنانچہ مدینہ میں اس تعلق سے مشورہ ہوا۔خلیفہ اول ابوبکرنےاس موقع پر ایک فیصلہ کن تقریر کی، اس میں انھوں نے یہ تاریخی جملہ کہا: إِنَّہُ قَدِ انْقَطَعَ الْوَحْیُ وَتَمَّ الدِّینُ أَیَنْقُصُ وَأَنا حَیّ؟ رَوَاہُ رزین (مشکاۃ المصابیح ، حدیث نمبر6034)۔ یعنی وحی بند ہوچکی ہے، اور دین مکمل ہوگیا ہے، کیا اس میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔
یہ جملہ کوئی سادہ جملہ نہیں تھا، بلکہ وہ ایک اسپرٹ کا اظہار تھا، جو ہر سچے مومن کے اندر ہونا چاہیے۔ وہ یہ کہ کبھی ایسا موقع آتا ہے کہ دین کے معاملے میں کرائسس کی نوبت آجاتی ہے۔ اس وقت ایک مرد مومن کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ایسے نازک موقع پرمرد مومن کو اس کی عارفانہ اسپرٹ اس پر ابھارے گی کہ وہ پورے عزم کے ساتھ یہ جملہ بولے— کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں موجود ہوں۔ یہ قول اگر کسی مرد مومن کے دل کی گہرائی سے نکلے تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ فضا بدل جاتی ہے، اور اہل اسلام کی گاڑی دوبارہ پٹری پر چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ لوگوں کے لیے اپنی جان، اپنا خاندان، اپنی جائداد، اپنے معاشی مفادات سب سے قیمتی ہوتے ہیں۔ انھیں چیزوں کو ایک انسان سب سے زیاہ اہم سمجھتا ہے۔ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں وہ ان کو ترجیح دیتا ہے اور اپنا سب کچھ اس کے لیے نثار کردیتا ہے۔اس کے برعکس، جس کے اندر ایمان اور معرفت کی اسپرٹ پیدا ہوجائےاس کی زندگی ایمان کی بنیاد پر قائم ہوجاتی ہے۔ اللہ کا خوف و محبت ، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ ، وغیرہ اس کے اندر اتنا بڑھا ہوا ہو کہ ہر دوسری چیز اس کو کمتر لگے۔ یہی صدیقی اسپرٹ ہے۔