برتر اخلاق
اعلی اخلاق وہ ہے جو برتر اخلاق ہو۔ یعنی ہر حال میں اچھے اخلاق پر قائم رہنا، خواہ دوسروں کی طرف سے برے اخلاق کا تجربہ پیش آرہا ہو۔ اعلی اخلاق دوسروں کے رد عمل کی بنیاد پر نہیں بنتا ،بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولی معیاروں کے تحت بنتا ہے۔ اسلام میں اخلاق ایک عبادت ہے، وہ کوئی جوابی انسانی رویہ نہیں۔ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے : لَا تَکُونُوا إِمَّعَةً، تَقُولُونَ:إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَکِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَکُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا (سنن الترمذی، حدیث نمبر2007)۔ یعنی تم لوگ اِمَّعَۃْ نہ بنو۔ یعنی یہ طرزِ عمل کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔ اور اگر وہ ہمارے ساتھ ظلم کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے۔ بلکہ تم اپنے آپ کواس کے لیے آمادہ کرو کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ براسلوک کریں تب بھی ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے ۔
اسلام میں عبادت کا ریوارڈ کیفیات کے اضافہ کے ساتھ بڑھ جاتاہے۔ اسی طرح جب کوئی آدمی دوسروں کی طرف سے برے سلوک کا تجربہ پیش آنے کے باوجود ان کے ساتھ اچھے سلوک پر قائم رہے تواس کا ریوارڈ بھی بڑھ جائے گا۔ کیوں کہ وہ جذبات کی قربانی کی سطح پر جاکر حسنِ اخلاق کے اصول پر قائم رہا۔ جذبات کی قربانی دوسرے الفاظ میں اپنے ایگو کی قربانی ہے، اور ایگو کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے۔
معتدل حالات میں حسنِ اخلاق اگر سادہ طورپرسماجی آداب (manners) کی حیثیت رکھتاہے تو غیرمعتدل حالات میں حسنِ اخلاق اعلیٰ درجہ کی عبادت بن جاتاہے۔ معتدل حالات میں جو خوش اخلاقی برتی جاتی ہے، وہ انسانی شخصیت کے ارتقا میں کچھ مدد گار نہیں ہوتی۔ لیکن جب ایک آدمی غیرمعتدل حالات میں دوسروں کے برے رویہ سے غیر متاثر رہ کر حسنِ اخلاق پر قائم رہے تو اس کی یہ روش اس کی شخصیت کے ارتقا کا ذریعہ بن جائے گی۔
حسنِ اخلاق کے سلسلے میں بائبل (متی، :2239) میں ہےکہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ(Love your neighbour as yourself)۔ ایک انسان کے لیے اخلاق کا سب سے بڑا موقع اس کے پڑوسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ پڑوسی کسی انسان کا سب سے قریبی ساتھی ہے۔ گھر کے افراد کے بعد کسی انسان کا سابقہ سب سے پہلے جن لوگوں سے پیش آتا ہے، وہ اس کے پڑوسی ہیں۔ پڑوسی کو خوش رکھنا، اس سے اچھا تعلق قائم کرنا، سچے انسان کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ پڑوسی خواہ اپنے مذہب کا ہو یا غیر مذہب کا، خواہ اپنی قوم کا ہو یا دوسری قوم کا، وہ ہر حال میں قابل لحاظ ہے۔ ہر حال میں اس کا وہ حق ادا کیا جائے گا جو انسانیت کا تقاضا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ قِیلَ:وَمَنْ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: الَّذِی لاَ یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَایِقَہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6016)۔یعنی خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔ پوچھا گیا: کون اے خدا کے رسول؟ آپ نے کہا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔
اس حدیث کے مطابق، کوئی مسلمان اگر اپنے پڑوسی کو ستائے۔ وہ اس طرح رہے کہ اس کے پڑوسی کو اس سے تکلیف پہنچے تو ایسے مسلمان کا ایمان و اسلام ہی مشتبہ ہوجائے گا۔ پڑوسی کے سلسلہ میں جو خدائی احکام ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سچے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کی یک طرفہ طور پر رعایت کرے۔ وہ پڑوسی کے رویہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوشش کرے۔کسی آدمی کی انسانیت اور اس کے دینی جذبہ کی پہلی کسوٹی اس کا پڑوسی ہے۔ پڑوسی اس بات کی پہچان ہے کہ آدمی کے اندر انسانی جذبہ ہے یا نہیں ۔
کسی آدمی کا پڑوسی اس سے خوش ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آدمی صحیح آدمی ہے، اور اگر اس سے اس کا پڑوسی ناخوش ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ آدمی صحیح نہیں۔اچھا پڑوسی بننا خود آدمی کے اچھے انسان ہونے کا ثبوت ہے۔ ایسے ہی انسان کو خدا اپنی رحمتوں میں حصہ دار بنائے گا۔