سجدۂ اعتراف

اللہ تعالی نے جب آدم کو پیدا کیا تو فرشتوں اور ابلیس کو یہ حکم دیا کہ وہ اس کے آگے سجدہ کریں۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَى وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِینَ (2:34)۔ یعنی جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور وہ منکروں میں سے ہوگیا۔

یہاں سجدہ کا مطلب سجدۂ اعتراف ہے، یعنی حقیقتِ واقعہ کو قبول کرنا۔ ایک طرف فرشتے ہیں، جو انسان کو اعتراف کا سبق دے رہے ہیں، اور دوسری طرف ابلیس ہے، جو انسان کو أَنَا خَیْرٌ مِنْہُ (میں اس سے بہتر ہوں)کی سوچ کے ذریعے عدم اعتراف کا سبق دے رہا ہے۔آدم کے واقعے میں سجدہ دراصل ایک حقیقت کا اعتراف (acknowledgement) تھا، یعنی اب ایک نئی مخلوق انسان کو، منصوبہ تخلیق کے مطابق، سینٹرل حیثیت حاصل ہوگی۔فرشتہ اور ابلیس دونوں کواسی حقیقت کے اعتراف کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کو فرشتوں نے مان لیا، لیکن ابلیس نے ماننے سے انکار کردیا۔

اس میں انسان کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ وہ اس دنیا میں اعتراف کی صفت کو اپنائے ۔ اس دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے ہر انسان کبھی نہ کبھی ایک "آدم" سے دو چار ہوتا ہے۔اس وقت خدا حال کی زبان میں ہم سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ اس "آدم" کا اعتراف کرو۔دوسرے الفاظ میں، آئڈیل کو ترک کرو اور پریکٹکل وزڈم کو اختیار کرو۔ اب جو فرشتوں کا طریقہ اختیار کرے، وہ خدا کا سچا بندہ ہے، وہ صحیح روش والا انسان ہے۔اس کے برعکس، جو ابلیس کا طریقہ اختیار کرے، اور تواضع کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ خدا کا سچا بندہ نہیں ہے ، وہ درست راستے سے دور انسان ہے۔ اعتراف یا بے اعترافی، دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا۔آخرت میں انسان سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے زندگی میں حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کیا یا تم نے بے اعترافی کی زندگی گزاری— اعتراف پر انعام ہے اور بےاعترافی پر شدید پکڑ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom