حقیقتِ انسانی کی دریافت

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ایک ضعیف بچہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ ضُعف انسان کی اصل حالت کو بتاتا ہے،یعنی انسان اپنی حقیقت کے اعتبار سےعاجزِ مطلق (all-powerless) ہے۔ لیکن اس دورِ ضُعف میں انسان کو زندہ شعور حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے بچپن کے دور میں انسان اپنی حالتِ ضُعف (powerlessness)کو شعوری طور پر دریافت نہیں کرپاتا ۔ اس کے بعد انسان کے اوپر جوانی کا دور آتا ہے۔ جوانی کے دور میں انسان کو شعور کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس وقت وہ اپنے شعور کو استعمال نہیں کرپاتا کہ وہ اپنے عجز کو دریافت کرسکے۔ اس لیے زندہ شعور کے باوجود وہ حالتِ ضُعف سے بے خبر رہتا ہے۔ یہ صرف بڑھاپے کا دور ہے، جب کہ انسان اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ حالتِ ضُعف کا ادراک کرسکے۔
بڑھاپے کی عمر کیا ہے۔ ایک لفظ میں بڑھاپا عجز (
powerlessness)کا تجربہ ہے۔ بڑھاپا کئی پہلوؤں سےزندگی کا ایک سخت ترین مرحلہ ہے۔ ایک وجہ تو یہی ہے کہ آدمی طبعی زندگی کے آخری ایام میں ہوتا ہے، اورموت سےبہت قریب ہوجاتا ہے۔دوسری وجہ ،تیزی کے ساتھ جسمانی قوت کا جاتے رہنا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی بڑھاپے کا دور انسان کی زندگی کا سب سے زیادہ قیمتی دور ہے۔یہ دور کسی انسان کے لیےاس کی اصل حقیقت کاجبری ادراک ہے۔ بڑھاپے سے پہلے انسان اپنے پہلےدو اَدوار (بچپن اور جوانی)کو پانے کے باوجود غفلت کی وجہ سے کھوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دورِ طفولیت (childhood)یا اپنے دور جوانی میں اپنی حقیقتِ واقعی کا ادراک کرسکے۔

انسان کا خالق یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو جانے ۔ وہ اسی ادراک کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ لیکن ہر انسان یہ غلطی کرتا ہے کہ وہ اپنے بچپن اور اپنی جوانی کے دور میں اپنی حقیقتِ واقعی کو دریافت کرنے سے بے خبر رہتا ہے۔ اس لیے خالق کی یہ منشا ہوتی ہے کہ وہ بڑھاپے کے دور میں انسان کوعجز کا احساس دلائے ، یعنی یہ کہ وہ اللہ رب العالمین کے مقابلے میں ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کے لیے اس زمین پر صحیح روش صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عجز کو جانے، اور احساسِ عجز کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ بوڑھے انسانوں کا گویا یہ مشن ہے کہ وہ غیر بوڑھوں کو اس حقیقتِ انسانی سے باخبر کرے۔

اللہ رب العالمین کی دریافت کےبعد انسان کے لیے سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے عجز کو دریافت کرے۔ حقیقتِ انسانی کی دریافت اپنی عجز کی دریافت کا دوسرا نام ہے۔ وہی انسان اپنی حقیقت کو دریافت کرتا ہے، جو اپنے عجز کو دریافت کرسکے۔قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں، جن کی منشا یہ ہے کہ انسان کو حقیقت کی دریافت کرائی جائے (الفتح، 48:11)۔ یہ حقیقت کہ انسان عاجز مطلق ہے، اور خداوند رب العالمین قادرِ مطلق (all-powerful)۔ اسی حقیقت کا شعوری ادراک معرفت (realization)کی اصل ہے۔

معرفت کی اصل حقیقت عجز ہے۔ کوئی انسان جب خداکی معرفت حاصل کرتاہے تو وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ انسان خدا کے مقابلے میں عاجز مطلق ہے ۔اس وقت وہ قدرتِ خداوندی کے مقابلے میں عجزِ انسانی کی دوسری حد (extent) بناتا ہے۔ یہی دریافت معرفت کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے۔ عبدیت کی اسی دریافت پر کسی کے لیے جنت کا تحقُق ہوتا ہے۔ جو انسان اس دریافت سے محروم رہ جائے، اس کے لیے اندیشہ ہے کہ وہ جنت سے بھی محروم رہ جائے۔

خالق کے تخلیقی نقشےکے مطابق، یہ ضروری ہے کہ انسان بچپن اور جوانی کے ابتدائی ادوار سے گزر کر بڑھاپے کی عمرکو پہنچے۔ خالق نے مقدر کیا ہے کہ جو لوگ بڑھاپے کے دور تک پہنچیں، وہ جاننے والے کی حیثیت سے ان لوگوں کے معلم بن جائیں ، جو زندگی کے اس آخری دور تک ابھی نہیں پہنچے۔ وہ ان لوگوں کو باخبر کریں، جو اس حقیقت کو جاننے سے محروم رہے۔ یہ تیسرے دور تک پہنچنے والے لوگ گویا انسانیت کے معلم ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کو اس حقیقت سے باخبر کریں، جو زندگی کے اس آخری دور تک نہیں پہنچ سکے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom