خیر کثیر
قرآن میں زوجین کے تعلق سے ایک نصیحت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَى أَنْ تَکْرَہُوا شَیْئًا وَیَجْعَلَ اللَّہُ فِیہِ خَیْرًا کَثِیرًا (4:19)۔ یعنی تم ان کے ساتھ اچھی طرح رہو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ رہنمائی صرف زوجین کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ زندگی کا اصول ہے۔کیسے ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ جو انسان کے لیے ناپسندیدہ واقعہ ہو، وہ اس کے لیے خیر کثیر کا ذریعہ بن جائے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے، جو مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنا جانتے ہوں۔ آیت میں یہ بات ازدواجی پارٹنر کے بارے میں کہی گئی ہے۔یعنی لائف پارٹنر کےناپسندیدہ پہلو کو اگنور کرکے اس کے پسندیدہ پہلو کو اویل کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آدمی کی شادی ہو، اور اس کو ناپسندیدہ یا مس میچ لائف پارٹنر مل جائے تو وہ اس کے لیے خیر کثیر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
وہ اس طرح کہ خواہ میچنگ پارٹنر ہوں یا مس میچ پارٹنر دونوں اللہ کی تخلیق ہیں۔ اگر آدمی کو مس میچ لائف پارٹنر مل جائے، اور وہ اس کو رضائے الٰہی سمجھ کر دل سے قبول کرلے تواللہ اس کے لیے ایک ایسے خیر کثیر کا فیصلہ کردیتا ہے، جو کسی میچنگ پارٹنر سے بھی زیادہ اہم ہو۔ خدا کے پاس میچنگ پارٹنر سے بہت زیادہ عظیم خیر کی صورتیں ہیں۔ مفسر القرطبی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ابو محمد بن ابی زید دین، علم اور معرفت میں بڑا مرتبہ رکھتے تھے۔ لیکن ان کی بیوی بڑی بدسلوک تھی، اور بدزبان بھی۔ شیخ صاحب سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی، اپنی معرفت دی ،اور میرے اوپردوسری دنیوی نعمتیں مکمل کی ہیں۔ہوسکتا شاید میرے کسی گناہ کی سزا اس صورت میں دی گئی ہو ،مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس کو جدا کروں تو مجھ پر اس سے سخت سزا اور عقوبت نازل ہو (تفسیر القرطبی، جلد5، صفحہ98)۔