زوال کی علامت
پاکستان کے بزرگ صحافی "م ش " اپنی یادداشتیں شائع کر رہے ہیں۔ اس کی ایک قسط نوائے وقت (۲۱ جنوری ۱۹۹۲) میں چھپی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
" میرا تجربہ یہ ہے کہ ہندو اپنے لوگوں کو خواہ وہ مٹی کے بت ہی کیوں نہ ہوں اپنا دیو تابنا لیتے ہیں۔ہندو اخبارات (قبل از تقسیم زمانے میں) کسی کو مہاتما، کسی کو بھارت پرش، کسی کو دیوتا سروپ کے القاب سے یاد کیا کرتے تھے۔ لیکن مسلم اخبارات ان سے اختلاف رائے رکھنے والے کو ٹوڈی یا جھولی چک کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ پنڈت مالویہ کا نگرس کے مخالف تھے۔ لیکن کسی ہندو اخبار نے انھیں غدار نہیں کہا تھا۔ بلکہ انھیں پوجیہ پاد کے خطاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ہمارے مذہبی طبقوں میں جس طرح تکفیر کارواج ہے اسی طرح سیاسی دنیا میں اختلاف رائے کو غداری سے محمول کیا جاتا ہے۔ ہندوؤں کے مقابلہ مسلمانوں میں انفرادی حیثیت میں بے حد قد آور شخصیات تھیں لیکن مسلمان حریفوں نے ہمیشہ ان کا چراغ بجھانے کی کوششیں روا رکھیں۔ سرسید احمد خاں پر کفر کے فتوے لگے۔سر میاں محمد شفیع کو ہمیشہ ٹوڈی کہا گیا۔ اقبال کے متعلق کہا گیا کہ: سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال۔
قائد اعظم کو کافر اعظم کہہ کر یاد کیا گیا۔ عبد الغفار خاں کو عبد الکفار خاں کے نام سے یاد کیا گیا۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی کو گالیوں سے نوازا گیا۔ (صفحہ ۸)
یہی اند از آج بھی جاری ہے۔ موجودہ دور پریس کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم علماء اور دانشور حقیقی تنقید سے واقف ہی نہیں۔ وہ تنقید کے نام سے صرف تنقیص کو جانتے ہیں۔ مسٹر اور مولوی، مقدس اور غیر مقدس، بے ریش اور باریش، اصاغر اور اکابر سب کا یہ حال ہے کہ جہاں کسی سے اختلاف ہوا فوراً اس کے خلاف وہ سب وشتم کی زبان بولنے لگیں گے۔ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ پر یہ انداز اتنازیادہ چھا چکا ہے کہ اب ان کی بظاہر علمی تنقید بھی حقیقۃ ً سب وشتم ہی کی ایک بدلی ہوئی صورت ہوتی ہے۔
کسی قوم میں یہ مزاج اس کے زوال یافتہ ہونے کی آخری علامت ہے۔ زوال یافتہ قوم کی خاص پہچان یہ ہے کہ اس کے پاس اظہار ِخیال کی صرف دو زبان رہ جاتی ہے۔ یا قصیدہ خوانی یا الزام تراشی۔