دو بول
آپ امام البخاری کی "صحیح "کو پڑھنا شروع کریں تو جب آپ اس کے خاتمے پر پہنچیں گےتو آخر میں آپ کو یہ حدیث لکھی ہوئی ملے گی:
عن أبی ھریرۃ قال قال النبيّ صلّی اللہ علیہ و سلّم: كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ الله العظيم(صحيح البخاري: 7124).
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دو بول خدائے مہربان کو محبوب ہیں۔ وہ زبان پر ہلکے ہیں مگر قیامت کی میزان پر بھاری ہیں۔ وہ بول ہیں: سبحان اللہ و بحمدہ سبحان الله العظيم۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں بول زمین و آسمان کی تمام چیزوں سے زیادہ وزنی ہیں۔وہ قیامت میں اعمال کے ترازو کو جھکادینے والے ہیں۔مگر ان بولوں کی یہ اہمیت ان کے تلفّظ میں نہیں ہے بلکہ ان کی حقیقت میں ہے۔وہ اس لیے ہے کہ وہ جس معنویت کا اظہار ہیں وہ معنویت اپنی اہمیت میں تمام چیزوں سے بڑھی ہوئی ہے۔
یہ دونوں بول در اصل معرفت ِخداوندی کے بول ہیں۔ ایک شخص کو ایمان کی معرفت حاصل ہوئی۔ اس نے اللہ کی پاک ہستی کا ادراک کیا۔ اس نے دیکھا کہ کائنات اپنے اَن گنت کرشموں کے ساتھ اس کی حمدمیں نغمہ سنج ہے۔ اس نے اپنے اندر اور اپنے باہر خدا کی عظمت و جلال کی نشانیاں دیکھیں۔ اس معرفت نے اس کے سینے میں حمد ِالہٰی اور اعترافِ خداوندی کا طوفان برپا کر دیا۔ وہ بے اختیار پکار اٹھا کہ خدایا تو پاک ہے۔ ساری حمد تیرے لیے ہے۔ تو سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔ اس کی زبان پر بے اختیار یہ کلمات جاری ہو گئے کہ سبحان اللہ وبحمده سبحان الله العظيم۔
اس طرح کا ایک بول محض ایک انسانی بول نہیں۔ وہ خدا کی بے پایاں عظمتوں کا انسان کی زبان سے اظہار ہے۔ وہ تمام باوزن چیزوں سے زیادہ با وزن ہے۔ وہ بلاشبہ اسی قابل ہے کہ جس پلڑے میں رکھا جائے اس پلڑے کو جھکا دے۔