رضوان اللہ، رضوان العباد
قرآن و حدیث میں بار بار مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ آخرت کے اعتبار سے صرف اس عمل کی قیمت ہے جس میں ابتغاء رضوان اللہ (الحدید: ۲۷) کی روح پائی جاتی ہو۔ جو عمل اس روح سے خالی ہو وہ آخرت کی میزان میں کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔
اللہ تعالیٰ کسی انسان کے صرف ظاہری عمل کو دیکھ کر اس کے بارےمیں فیصلہ نہیں کرتا۔ وہ اس کی قلبی حالت کے اعتبار سے اس کا فیصلہ کرتا ہے جس کو شریعت میں نیت کہا گیا ہے۔ اس پہلو سے تمام انسانی اعمال کی صرف دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو رضوان اللہ (اللہ کی خوشی) حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ دوسرا وہ جو رضوان العباد (بندوں کی خوشی) حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہو۔
جو شخص رضوان اللہ کا طالب ہو، اس کا رخ ہمیشہ اللہ کی طرف ہوتا ہے، وہ ہر معاملے میں اللہ کی پسند اور ناپسند کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنا رویہ ہمیشہ اصولِ حق کی بنیاد پر متعین کرتا ہے۔ وہ وہی بات بولتا ہے جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہو اور اسی سمت میں چلتا ہے جدھر اللہ نے چلنے کا حکم دیا ہے۔ وہ اپنی اس روش پر قائم رہتا ہے، خواہ تمام انسان اس کے مخالف ہو جائیں۔ خواہ اس کے نتیجے میں وہ خود اپنے لوگوں سے کٹ جائے۔
اس کے برعکس معاملہ اس شخص کا ہوتا ہے جو رضوان العباد کا طالب بنا ہوا ہو۔ اس کی توجہ کا مرکز اللہ کے بجائے انسان بن جاتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں اپنی قوم، اپنے حلقہ، اپنی پارٹی اور اپنے د نیوی سرپرستوں کی طرف دیکھتا ہے، وہ ایسے الفاظ بولتا ہے جو ان انسانوں کو پسند ہوں، وہ ایسے عمل کرتا ہے جو ان انسانوں کے درمیان اس کو مقبول بنانے والے ہوں۔
جو شخص رضوان اللہ کا طالب ہو، وہ اللہ کے معاملے میں آخری حد تک حسّاس ہوتا ہے۔ وہ ہر دوسرے پہلو کو نظر انداز کر سکتا ہے مگر اللہ والے پہلو کو نظرانداز کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو لوگ رضوان العباد کے طالب ہوں، وہ انسانوں کے بارے میں سب سے زیادہ حسّاس بن جاتے ہیں وہ انسانوں کا اس طرح لحاظ کر نے لگتے ہیں جس طرح خدا کا لحاظ کرنا چاہیے۔
اول الذکر لوگوں کا مقام جنت ہے اور ثانی الذکر لوگوں کا مقام جہنّم۔