ایک تبصرہ
انڈیا ٹوڈے (۵ امئی ۱۹۹۱) میں ایک مباحثہ (debate) چھپا ہے جو دہلی کے ۱۰تعلیم یافتہ اصحاب کے درمیان ہوا۔ اس کا موضوع ہندستان میں سیکولرزم (secularism in India) تھا۔ یہ مباحثہ آٹھ گھنٹے تک جاری رہا۔ اس سلسلے میں اجودھیا کی بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا مسئلہ بھی زیرِ بحث آیا۔
ٹائمس آف انڈیا کے سابق ایڈیٹر مسٹر گری لال جین نے اس موقع پر بولتے ہوئے جو باتیں کہیں، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ مسلمان خود اپنی بے وقوفی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ وہ غیر معمولی قسم کےبے وقوف لوگ ہیں۔ وہ ایک ایسے عمارتی ڈھانچے کے لیے لڑ رہے ہیں جس کی مسجد کی حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ مسلمان اگر ہوشیار ہوتے تو وہ بہت پہلے ایک عمارتی ڈھانچے کے اس وہم کو چھوڑ دیتے اور اس طرح بی جے پی کے نیچے کی زمین اس سے چھین لیتے:
The Muslims are victims of their own stupidity. They are extraordinary stupid people. I don't mind this going on record. To fight for a structure which has ceased to be a mosque! If the Muslims were clever they would have given away this ghost of a structure long ago and taken the earth from under the BJP (p. 137).
مسٹرگری لال جین کے نزدیک، مسلمان ایک غیر موجود مسجد کے لیے لڑ رہے ہیں۔مگر زیادہ صحیح اور مطابق واقعہ بات یہ ہے کہ مسلمان ایک موجود مسجد پر غاصبانہ قبضے کے خلاف لڑرہے ہیں۔ مسلمان ایک ثابت شدہ تاریخی مسجد پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جس پر کچھ سالوں سے ان کا قبضہ باقی نہیں رہا ہے۔
ایک چیز کسی آدمی کی ملکیت ہو اور دوسرا شخص اس پر قبضہ کرلے تو اپنی ملکیت کو واپس لینے کے لیے لڑنا مسلّمہ طور پر ایک شریفانہ حق ہے جو تمام دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اور یقیناً مسٹرگری لال جین بھی اس کو تسلیم کرتے ہوں گے۔
مثلاً اگر کوئی شخص مسٹر جین کے گھر پر قبضہ کر کے بیٹھ جائے تو وہ ضرور اس کے لیے لڑیں گے۔ اس وقت اگر کوئی شخص مسٹر جین سے کہے کہ تم بہت بے وقوف ہو۔ تم ایک ایسی چیز کے لیے لڑرہےہو جو تمہاری چیز کی حیثیت سے باقی نہیں رہی، تو مسٹر جین اس کو جواب دیں گے کہ تم خود سب سے بڑے وقوف ہو۔ میری چیز پر کوئی شخص غاصبانہ قبضہ کرلے تو میں کیوں نہ غاصبانہ قبضہ کو ختم کرنے کے لیے اس سے لڑوں۔ وہ کہیں گے کہ میں کسی غیر موجود مکان کے لیے نہیں لڑرہا ہوں۔ بلکہ ایک موجود مکان پرغاصبانہ قبضہ کے خلاف لڑرہا ہوں۔
اگر مسٹر گری لال جین کی دلیل کو مان لیا جائے تو پچاس سال پہلے ہندستان کی آزادی کے لیے جو جد و جہد کی گئی وہ پوری کی پوری بے وقوفی قرار پائے گی۔ مسٹر جین کے مذکورہ اصول کو ماننے کے بعد آخر اس کے حق میں کون سی دلیل باقی رہے گی۔ اس کے بعد ملک کے اوپر سے ودیشی قبضہ کو ہٹانے کےلیے قربانیاں دینا کس منطق سے معقول ثابت کیا جائے گا۔
دنیا کے تمام قانونی نظاموں میں استقرارِ حق (declaration of title) کے لیے قانون بنائے گئے ہیں۔ مگر مذکورہ نظریہ کو ماننے کے بعد اس قسم کے قوانین سرے سے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے اپنی مغصوبہ ملکیت پر دوبارہ اپنا قبضہ بحال کرنے کا کوئی قانونی جواز باقی نہیں رہتا۔
البتہ مسٹر گری لال جین یا کوئی بھی سمجھ دار آدمی ایسا نہیں کرے گا کہ اس کے گھر پر کوئی شخص غاصبانہ قبضہ کرلے تو وہ جوش میں آکر غاصب کو قتل کر ڈالے۔ ایسا کرنا غصب کے کیس پر قتل کے کیس کااضافہ کرنا ہے۔ اس سے اصل مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ البتہ اصل مسئلہ میں مزید پیچیدہ تر مسائل کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
بابری مسجد کے کیس میں اصل غلطی خود کیس کو لے کر اٹھنا نہیں ہے۔ بلکہ کیس کو غلط طور پر لیڈری کا اشو بنانا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے نااہل لیڈروں نے اس کے حل کے نام پر غلط طریقے اختیار کیے۔ یہی غلط طریق کار ہے جس نے بابری مسجد کے مسئلے کو موجودہ سنگین صورتِ حال تک پہنچا دیا۔اس غلط طریق ِکار کے نا مطلوب نتائج میں سے ایک نامطلوب نتیجہ یہ ہے کہ ہندوؤں کے فرقہ پرست عناصر کو غیر معمولی طور پر ابھرنے کا موقع مل گیا۔
بابری مسجد کے مسئلے کو ایک جائز اور حقیقی مسئلہ مانتے ہوئے میں کہوں گا کہ بابری مسجد نہیں بلکہ یہ بابری مسجد کے نام پر اٹھنے والے مسلمانوں کے لیڈر ہیں جنھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو زمین دی ہے۔ مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اگر ہوشیار ہوتے تو صحیح طریق ِکار اختیار کر کے یقیناً وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس ملک میں بے زمین کر سکتے تھے۔
بابری مسجد کا اشو ایک حقیقی اشو ہے۔ مگر ۱۹۸۶ میں "با بری مسجد ایکشن کمیٹی "کے نام سے جو تنظیم بنی اور اس نے اس اشو کو جس طرح عوامی اور احتجاجی انداز سے اٹھایا، وہ بلاشبہ احمقانہ بھی تھا اور مہلک بھی۔ نادان مسلم لیڈروں کا یہی طریق کار ہے جس نے بابری مسجد کے مسئلے کو غیر ضروری طور پر اتنا پیچیدہ بنا دیا۔ بابری مسجد تحریک اپنی موجودہ صورت میں بلا شبہ ایک قسم کی اینٹی بابری مسجد تحریک تھی۔ اس "اینٹی تحریک "میں مسلمانوں کے تمام رہنما شریک ہیں، کوئی براہِ راست اور کوئی بالواسطہ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیا میں مسائل پیدا بھی ہوتے ہیں اور مسائل حل بھی کیے جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ مسئلے کا پیدا ہونا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسئلے کو حل کرنے کا کام نا اہل اور نکمے افرادکے حوالے ہو جائے۔ بدقسمتی سے یہی دوسری صورت با بری مسجد کے مسئلے کے ساتھ پیش آئی ہے۔
غلط لیڈروں کے اسی غلط طریق کار کا یہ نتیجہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جو ۱۹۸۱ کے الیکشن میں ہندستانی پارلی منٹ میں صرف دوسیٹیں حاصل کر سکی تھی وہ ۱۹۸۹ کے الکشن میں پارلیمنٹ کی ۸۶ سیٹوں پرقابض ہوگئی۔ اور ۱۹۹۱ کے الکشن میں اس نے مزید اضافے کے ساتھ پارلیمنٹ میں ۱۲۰سیٹیں حاصل کرلی ہیں۔ نیز ملک کی سب سے بڑی ریاست یوپی میں وہ اس پوزیشن میں ہو گئی کہ وہاں اپنی وزارت بنا سکے۔ یہ و ہی ریاست ہے جس کے ایک قصبہ میں بابری مسجد واقع ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ داعیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا۔تم آسانی پیدا کر و،تم مشکل نہ پیدا کر و۔ تم لوگوں کو بشارت دو، تم انہیں متنفر نہ کرو۔(صحيح البخاري: 69)
اس سے معلوم ہوا کہ ایک صحیح مقصد ہو تب بھی اس کے لیے کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو یسر اور بشارت کے انداز میں لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کو عسر اور نفرت کے انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ بابری مسجد کی/ تحریک چلانے والے نا اہل رہنماؤں نےیہ کیا کہ اس تحریک کو انھوں نے عسر اور نفرت کے انداز میں چلایا، وہ اس کو یسر اور بشارت والے انداز میں نہ چلا سکے، حالانکہ اس کا امکان پوری طرح موجود تھا۔ اس غلط اور غیر اسلامی طریق کار کا نتیجہ یہ ہے کہ اصل مسئلہ توحل نہیں ہوا، البتہ کچھ مزید سنگین مسائل ملت ِمسلمہ کے لیے پیدا ہو گئے۔