سفر نامہ امر یکہ- ۵
صغیر اسلم صاحب اور ان کے بچے امریکہ کے شہری بن چکے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے ابھی شہریت نہیں لی تھی۔ ۲۸ نومبر کی صبح کو وہ لوگ شہریت کی کارروائی مکمل کرنے کے لیے لاس اینجلیز کے متعلقہ آفس میں جارہے تھے۔ میں نے سوچا کہ میں بھی اس " تاریخی منظر "کو دیکھوں۔ چناں چہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہو گیا۔
امریکی شہریت دینے کی تقریب (ceremony) سال میں دوبار کی جاتی ہے۔ کنونشن سنٹر پہنچا تو وہاں ہزاروں انسانوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔ تمام امیدوار صبح سویرے اپنے گھروں سے نکل کر یہاں پہنچے تھے۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے اس موقع کو کھو دیا تو دوسرا موقع چھ مہینے کے بعد آئے گا۔
خاص راستوں سے گزارتے ہوئے تمام لوگ ایک بہت بڑے ہال میں لے جائے گئے جہاں کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایک طرف شہریت کے امیدوار اور دوسری طرف وزیٹرس بٹھادیے گئے۔ اسٹیج سے اس تقریب (ceremony) کی اہمیت بتائی جارہی تھی۔ کچھ دیرکے بعد ایک سفید فام جج آ کر صدارت کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ سب سے پہلے امیدوار لوگوں نے امریکہ کا ایک چھوٹا سا کاغذی جھنڈا اپنے ہاتھ سے اٹھا کر لہرایا۔ جج نے آپ کی زندگی کے اس تاریخی دن (This historic day of your life) کے الفاظ سے آغاز کرتے ہوئے کچھ ضروری باتیں کہیں۔ اس کے بعد اس نے حلف کے انگریزی الفاظ کہے اور ہر ایک نے اس کو بلند آوازسے دہرایا۔ اس کی تکمیل کے بعد جج نے اعلان کیا کہ اب یو نائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کے شہری ہیں۔ آخر میں سب لوگوں کو کھڑا کر کے نیشنل اینتھم بجایا گیا۔ معلوم ہوا کہ تین دنوں کے اندر صرف لاس اینجلیز کے سات ہزار آدمیوں کو امریکہ کا شہری بنایا گیا ہے۔
اب ہم لوگ ہال سے باہر کر دیے گئے۔ کچھ دیر کے بعد نئے امریکی شہری ایک ایک کر کے باہر آنے لگے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں سفید کاغذ کا ایک بڑا لفا فہ تھا۔ اس میں شہریت کا سرٹیفکٹ اور دوسرے کاغذات رکھے ہوئے تھے۔ لوگوں کے چہروں پر خوشی چمک رہی تھی۔ کوئی لفافے کو سنبھال ر ہا تھا، کوئی اپنے ساتھی کو سرٹیفکٹ نکال کر دکھا رہا تھا۔ کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ ایک ہاتھ میں امریکی جھنڈااور دوسرے ہاتھ میں شہریت کا سرٹیفکٹ لیے ہوئے فوٹو کھنچوار ہے تھے۔
میں ایک طرف کھڑا ہوا یہ مناظر دیکھ رہا تھا۔ اس میں مختلف ملکوں اور مختلف قوموں کے مرد اور عورت شامل تھے۔ اچانک ایک شخص نے میری طرف بڑھ کر کہا: السلام علیکم۔ یہ جاوید الہٰ آبادی تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ہندستان سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے بھی آج یہاں آکر امریکہ کی شہریت لی ہے۔ میری مسلمان صورت دیکھ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے تھے۔ انھوں نے سامنے کی بھیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس سٹی زن شپ میں کیا دھرا ہے، اصلی سٹی زن شپ تو مرنے کے بعد والی ہے۔
ان کا یہ جملہ سن کر مجھ پر عجیب تاثر ہوا۔ میں نے سوچا کہ امریکہ کی شہریت لینے کے لیے لوگ کہاں کہاں سے بھاگے چلے آرہے ہیں۔ مگر جنت کا شہری بننے سے کسی کو دل چسپی نہیں۔ جنت کا شہری بنانے کی کھڑکیاں امید واروں کی قطار سے خالی ہیں۔
یہاں میری ملاقات ایک مسلمان سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کا اقتصادی نظام تو عربوں کی دولت پر چل رہا ہے۔ عربوں کی جو دولت یہاں کے بینکوں میں جمع ہے اور یہاں مختلف کمپنیوں میں عربوں کا جو سر مایہ لگا ہوا ہے، اس کو اگر وہ نکال لیں تو امریکہ دیوالیہ ہو جائے گا۔
دوسری طرف میری ملاقات ایک ہندو انجینئر مسٹرمنن سے ہوئی۔ ان کا خیال تھاکہ امریکہ کو تو ہند و ماہرین چلا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکی سائنس دانوں کی بہت بڑی تعداد دراصل ہندستانی ہے۔ اور یہی امریکہ کی بڑائی کا راز ہے۔ وہ ہر ملک کے بہترین افراد کو اپنی طرف کھینچ کر لاتا ہے اور ان کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے:
A large number of American scientists are in fact Indian. And that is part of America's greatness. It attracts, absorbs and assimilates the best from every land.
یہ مشا بہت بھی کیسی عجیب ہے کہ ہندو یا مسلمان کوئی بھی خود" اپنے ملک" کو ترقی نہ دے سکا، ہ دونوں اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ وہی ہیں جنھوں نے" دوسرے ملک" کو اعلی ترقی کے درجے تک پہنچایا ہے۔ مزید یہ کہ یہ ملک دونوں کے نزدیک قابلِ مذمت سامراجی ملک ہے۔
امریکہ میں قیام کے دوران میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ وہ یہاں کی ایک مسجد میں امام ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مذکورہ مسجد سے تعلق رکھنے والے مسلمان ان کے خلاف ہو گئے ہیں اور ان کو مسجد کی امامت سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق، اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ایک بار جمعہ کی تقریر میں صدام حسین کی مذمت کی تھی، اور خلیج کے معاملے میں سعودی موقف کی حمایت کی تھی۔
یہ کوئی انفرادی بات نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خلیج کے موجودہ بحران میں مسلم دنیا کی اکثریت صدام حسین کی حامی ہے۔ علماء کی اکثریت نے اگر چہ صدام حسین کو غلط ٹھہرایا ہے، مگر مسلم عوام کی اکثریت اس معاملے میں پُر وصدام نقطۂ نظر رکھتی ہے۔
صدام حسین کا کویت پر حملہ واضح طور پر جارحیت ہے۔ صدام حسین نے کویت میں د اخلے کے بعد مبینہ طور پر مسلمانوں پر سنگین مظالم کیے ہیں۔ ان سب کے باوجود کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی بیشتر تعداد صدام حسین کی مذمت نہیں کر تی، بلکہ ان کو ہیرو کا مقام دیے ہوے ہے۔
اس کی وجہ مسلمانوں کی شکست خوردہ نفسیات ہے۔ مسلمان ایک سو سال سے اس ا حساس میں مبتلا ہیں کہ مغربی قوموں نے ان کے وقار کو مجروح کیا۔ ان کے اقتدار کا خاتمہ کیا۔ا ن کی تہذیب کو مٹا ڈالا۔ اس شکست خوردگی کی بنا پر جب بھی وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص ان کے" دشمنوں " کو چیلنج کر رہا ہے تو اس سے انھیں ایک قسم کی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ ایسا آدمی ان کی نظر میں ہیرو بن جاتا ہے۔ یہی نفسیات ہے جس کی بنا پر موجودہ صدی کے آغاز میں کمال اتاترک مسلمانوں کے ہیرو بن گئے۔ اس کے بعد جمال عبد الناصر، معمرقذافی،آ یات اللہ خمینی، ٹھیک اسی بنا پر ان کے ہیر و بنتے رہے ہیں۔ اور اب اسی بنا پر انھوں نے صدام حسین کو اپنا ہیرو بنا رکھا ہے، کیوں کہ کم از کم الفاظ کی حد تک، وہ "دشمنِ اکبر"امریکہ سے چیلنج کی زبان میں بات کر رہا ہے۔
یہ خوش خیالیوں کی دنیا میں کسی کو ہیر وبنا کر اپنی مفروضہ فتح پر خوشی منانا ہے۔ ایسی مفروضہ فتح کسی کے کچھ کام آنے والی نہیں۔ اس دنیا میں حقائق کی قیمت ہے نہ کہ مفروضات کی۔
۲ اگست ۱۹۹۰ کو عراق نے کویت پر فوجی قبضہ کر لیا تھا۔ نومبر کے خاتمے پر اس کے قبضے کو چار مہینے پورے ہو جائیں گے۔ اس مدت میں امریکہ کی قیادت میں مختلف ملکوں نے عراق سے مطالبہ جاری کر رکھا تھا کہ وہ بلا شرط کویت کو خالی کر دے۔ سوویت یونین اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ تھا، مگر شرائط اور تحفظات کے ساتھ۔ روزنامہ آرینج کا ونٹی رجسٹر(۲۷ نومبر ۱۹۹۰)میں صفحہ اول پر یہ سرخی پڑھی کہ سوویت یونین اب تحفظات کو ختم کر کے امریکہ کا حامی ہو گیا ہے۔ اس خبر کی سرخی ہے ––––عراق کے لیے ایک آخری موقع
final opportunity for Iraq
خبرمیں بتایا گیا تھا کہ سوویت یونین کے پریسیڈنٹ میخائیل گور با چیف نے الٹی میٹم کی زبان میں بولتے ہوے کہا کہ عراق جنوری ۱۹۹۱ تک کو یت سے اپنی فوجیں واپس بلالے ورنہ جنگی کارروائی کا سامنا کر ے۔ انگریزی رپورٹ کے مطابق، انھوں نے کہا کہ عراق کی قسمت اس کی قیادت کے ہاتھ میں ہے، اور وقت اب اس کے لیے ختم ہو رہا ہے:
The fate of Iraq is in the hands of its leadership. Time is running out.
میں نے اس کو پڑھا تو میں نے سوچا کہ اگر معاملے کو وسیع تر معنوں میں لیا جائے تو یہ وار ننگ نہ صرف صدام حسین کے لیے ہے بلکہ گوربا چیف، جارج بش اور تمام دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے۔ ہر ایک کے لیے وقت ختم ہو رہا ہے۔ ہر ایک اس لمحے کی طرف بڑ ھ رہا ہے جب کہ خدا کا صور پھونک دیا جائے اور ہر آدمی کو وہاں کھڑا کر دیا جائے جہاں اس کے لیے صرف اپنے کیے کا انجام پانے کا موقع ہو، سرکشی کرنے کا موقع کسی کے لیے باقی نہ ر ہے۔
یہاں کے اخبارات کا طریقہ ہندستانی اخبارات سے مختلف ہے۔ یہاں کا اخبار سیکڑوں صفحات کا ایک بنڈل ہوتا ہے۔ مگروہ ایک کتاب کی صورت میں نہیں ہوتا۔ اس کے الگ الگ بہت سے سیکشن ہوتے ہیں۔ مثلاً ورلڈ نیوز، ٹریول، اسپورٹس، میٹرو، وغیرہ
۲۵ نومبر کو میں روزنامہ آرنج کا ونٹی رجسٹر کا سکشن ہوم فائنڈر دیکھ رہا تھا۔ اس کے صفحہ ۳ پر ایک ہنستی ہوئی تصویر تھی۔ اس کے نیچے لکھا ہوا تھا "وجے سونی"۔ مسٹر سونی دہرہ دون میں ۱۹۴۴ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سول انجینئرنگ میں ماسٹر ڈگری لی۔ ایک عرصہ تک انڈیا میں کام کرنے کے بعد ۱۹۸۲ میں وہ امریکہ چلے گئے۔ اب وہ آرینج کاونٹی میں مقیم ہیں۔ (ٹیلیفون 5598451) وہ جائداد (real estate) کی خرید و فرخت کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے کیلی فورنیا میں اس کام میں نمبر ۲ کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ انھوں نے اپنی کامیابی کا کریڈٹ سب سے زیادہ ڈیل کارنیگی کو دیاہے جس کی درج ِذیل کتاب انھوں نے بار بار پڑھی ہے:
How to Win Friends and Influence People.
انھوں نے کہا کہ میں اپنے گاہک کی بات کو نہایت غور سے سنتا ہوں اور اس کی ہر بات کا غذ پر نوٹ کرتا جا تا ہوں۔ میرے بستر پر مستقل طور پر ایک نوٹ بک موجود ہوتی ہے۔ تاکہ رات کے وقت اگر ٹیلی فون پر کوئی پیغام ملے تو اسی وقت میں اس کو لکھ کر محفوظ کر لوں۔ انھوں نے کہا کہ ۱۹۹۰ء کے لیے میرانشانہ ۲۵ ملین ڈالر ہے:
My goal for 1990 is $25 million.
ہر آدمی حقیقی کے نام پر غیر حقیقی (non-real) کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے، اس دنیا میں کوئی نہیں جو واقعی معنوں میں حقیقی (real) کو اپنا نشانہ بنانے پر تیار ہو۔
یہاں کے لوگوں میں یہ ذوق ہے کہ وہ اپنی کار کے پیچھے نمبر پلیٹ کے اوپر کچھ پسندیدہ فقرے لکھ دیتے ہیں۔ اس طرح کی کئی گاڑیاں میں نے دیکھیں۔ چند گاڑیوں پر لکھے ہوئے جملےیہ تھے:
Sex is like credit. Some get it, Some don't.
Happiness is being a grandparent.
Get rich on life, not drugs.
غالباً بوڑھے لوگ اس قسم کے فقرے اپنی گاڑیوں پر لکھتے ہیں، انسانوں میں انھیں کوئی نہیں ملتا جس سے وہ کامیابی کے ساتھ اپنی بات کہہ سکیں۔ اس لیے وہ اپنی مشین پر اسے نقش کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔
۷دسمبر ۱۹۹۰ کی شام کو یہاں سے واپسی ہوئی۔ ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی کے ساتھ لاس اینجلیزا یئر پورٹ پہنچا۔ اندر داخل ہوا تو ایک منظر میرے لیے بڑا عجیب تھا۔ ایک جاپانی خاتون بہت بڑا سا ایک "لڑکا" اپنے سینے سے لگائے ہوئی تھی۔ لڑکے کے موٹے موٹے ہاتھ اور پاؤں لٹک رہے تھے۔میں نے سوچا کہ اتنے بڑے لڑکے کا بوجھ وہ کیسے اتنی آسانی کے ساتھ اٹھائے ہوئے ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ زندہ لڑ کا نہیں ہے بلکہ کسی ہلکی چیز سے بنی ہوئی بہت بڑی گڑیا ہے۔ ماڈرن عورت لڑکا پیدا کرنا نہیں چاہتی۔ مگروہ اولاد کی فطری طلب کو بھی اپنے اندر سے نکال نہ سکی۔ حقیقی اولاد سے محرومی کی تلافی وہ مصنوعی اولاد کے ذریعہ کر رہی ہے۔
ایئر پورٹ کے اندرونی حصے میں داخل ہونے سے پہلے، قاعدہ کے مطابق، ہمارا سامان یک مخصوص قسم کی متحرک بیلٹ پر رکھا گیا۔ اور اس پر چلتا ہوا اندرونی حصہ میں پہنچ گیا۔ اس طرح تمام لوگوں کے سامان اس کے اوپر رکھ کر گزارے جارہے تھے۔ میں نے دیکھا تو اوپر لگی ہوئی اسکرین میں ہر چیز کی صاف تصویر آرہی تھی۔ بکس مکمل طور پر بندتھا۔ مگر اس کے اندر جو چیز تھی، مشین اس کی تصویر لے کر اسکرین کے اوپر اس کو منعکس کر رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ اسی طرح خداہر ایک کی اندرونی حالت کو دیکھ رہا ہے۔ آدمی خواہ بند کمرےمیں کوئی عمل کرے یا اپنے سینے کے اندر کوئی بات سوچے، خدائے عالم الغیب سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔
لاس اینجلیز سے جاپان ایر لائنز کی فلائٹ نمبر ۶۵ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ یہاں کے ائیر پورٹ پر تقریباً ہر وقت کوئی جہاز اترتا ہے یا اڑ رہا ہوتا ہے۔ جدید مواصلاتی ذرائع نے دوری کے مسئلے کو اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب زمین کے ایک حصہ اور اس کے دوسرے حصہ کے در میان ربط قائم کر نا اتنا ہی آسان ہو گیا ہے جتنا کسی محلہ کے ایک حصہ اور دوسرے حصہ میں۔ اس مواصلاتی انقلاب سے لوگ زبر دست سیاسی اور تجارتی فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ مثلاًجاپان اور امریکہ کے درمیان ہر روز ۱۲ فلائٹ آتی ہے اور ۱۲ فلائٹ جاتی ہے۔ مگر اس مواصلاتی انقلاب کو اب تک اشاعت ِحق کے لیے استعمال نہ کیا جاسکا۔
راستے میں ائیر ہوسٹس اخبار لے کر آئی۔ میں نے دیکھا تو اس کے ہاتھ میں بظاہر بہت سے اخبار تھے۔ میں نے چاہا کہ ان میں سے ایک لے لوں۔ اس نے کہا کہ یہ سب ایک ہی اخبار ہے یہ لاس اینجلیز ٹائمس (۷ دسمبر ۱۹۹۰) تھا۔ میں نے گنا تو اس کے کل ۸۰ ا صفحات تھے۔ یہی امریکی اخبارات کا عام اند از ہے۔ وہ اخبار سے زیادہ اشتہارات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتنے زیادہ صفحات پرمشتمل ہوتے ہیں۔
جاپان ایئر لائنز کی فلائٹ میگزین (Winds) کے شمارہ دسمبر ۱۹۹۰ کو دیکھ رہا تھا۔ ضخیم میگزین کا بیشتر حصہ اشتہارات سے بھرا ہوا تھا۔ ایک صفحہ پر یہ الفاظ درج تھے:
If you've got a minute, Minolta's got a copier
یہ کاپی کرنے والی مشین کا اشتہار تھا۔ اس میں چھوٹی بڑی مشینوں کی تصویریں تھیں–––– ۱۵ کاپی فی منٹ،۳۰ کاپی فی منٹ، ۴۰ کاپی فی منٹ، ۶۰ کاپی فی منٹ۔ اس کو دیکھ کر جناب صفی قریشی صاحب کی بات یاد آئی کہ موجودہ سوسائٹی انسٹینٹ فکس سوسائٹی ہے۔ انسٹینٹ کافی کی طرح ہر کام فوری طور پر ہوتا ہے۔ اس سے جدید انسان فوری حل کا عادی ہو گیا ہے۔ یہ آخرت کا پیغام دینے والی تحریک کے لیے ایک نفسیاتی رکاوٹ ہے۔ انسان اپنے مسئلہ کو " آج " حل کرنا چاہتا ہے، اور آخرت کا نظریہ اس کو "کل " تک موخر کر رہا ہے۔
یہ بڑا جہاز (۷۴۷) تھا۔ مگر چند کو چھوڑ کر اس کے تمام مسافر جاپانی تھے۔ جہاز کے اندر کامل سکون نظر آیا۔ ہندوستانی مسافر جس جہاز میں ہوں، اس کے اندر شور لازمی ہے۔ ٹائیلٹ میں جائیے توگندا کیا ہواملے گا۔ بچے جہاز کے اندر دوڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔ مگر موجودہ جہاز میں اس قسم کی کوئی چیز نہ تھی۔ اکثر مسافر پڑھتے یا لکھتے ہوئے دکھائی دیے۔ جاپانیوں کا یہی مزاج جاپانیوں کا اصل سرمایہ ہے۔ ان کی ترقی کا اصل راز ان کا یہی تعمیری مزاج ہے۔
لاس اینجلیز سے ٹوکیو تک تقریباً دس گھنٹہ کی مسلسل پرواز ہے۔ یہ پورا سفر بحر الکاہل کے اوپر طے ہوتا ہے۔ بحر الکاہل کی گہرائی اتنی زیادہ ہے کہ اگر اس کے اندر ہمالیہ پہاڑ ڈال دیا جائے تو وہ اس طرح ڈوب جائے کہ اس کا کوئی حصہ دکھائی نہیں ے گا۔ اتنے گہرے اور اتنے بڑے سمندر کے اوپر انسان تیز رفتاری کے ساتھ اڑتا ہوا ایک ساحل سے دوسرے ساحل پر پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا یہ کیسا عجیب کرشمہ ہے۔
"اس وقت ہم ۳۳ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہے ہیں۔" جہاز کے پائلٹ نے اعلان کیا۔ میں نے جہازکے ایک جاپانی افسر سے پوچھا کہ اتنی زیادہ بلندی پر اڑنے کا سبب کیاہوتا ہے۔ کیوں کہ اس وقت آپ سمندر کے اوپر ہیں، آپ دو ہزار فٹ کی بلندی پر بھی اڑسکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ نیچے ہوا کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ایندھن کو جلانے کے لیے پٹر ول کی زیادہ مقدار خرچ ہوتی ہے۔ جب کہ اوپرہوا کا دباؤ کم ہونے کی وجہ سے پٹرول کا خرچ تقریباًنصف کے بقدر گھٹ جاتا ہے۔
جہاز کا بلندی پر جانا جہاز کے لیے مفید ہےمگروہ انسان کے لیے سخت مضر ہے۔ انسان کے اندر خون کا جو دوران ہے، اس کو متوازن رکھنے کے لیے ہوا کا مناسب دباؤ انتہائی ضروری ہے۔ یہ دباؤ زمین کی سطح پر بالکل مناسب مقدار میں موجود رہتا ہے۔ مگر اوپری فضا میں ہوا کا دباؤ بہت کم ہو جاتا ہے۔ کم دباؤ کی اس ہوا میں اگر انسان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو جسم میں خون کا رکنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسی حالت میں خون کان، ناک، آنکھ سے بہنے لگے گا حتی کہ وہ جلد کو پھاڑ کر نکل پڑے گا۔ اور پھر تھوڑی دیر میں انسان کی موت واقع ہو جائے گی۔
اس مسئلہ کے حل کے لیے ہوائی جہاز میں وہ انتظام کیا گیا ہے جس کو کیبن کا دباؤ (cabin pressurization) کہا جاتا ہے۔ یہ طریقہ ۱۹۴۰ سے ہوائی جہازوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے ہوائی جہاز زیادہ بلندی پر نہیں اڑ سکتے تھے۔ آج ہم ہوائی جہاز کے اندر اسی طرح بیٹھتے ہیں جس طرح زمین کی سطح پر کوئی شخص کار کے اندر بیٹھتا ہے۔ مگر یہ آسانی اس خصوصی انتظام کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے جس کا اہتمام جدید جہازوں کے اندر موجودہوتا ہے۔
یہی موجودہ دنیا کا عام قانون ہے۔ یہاں کوئی مسئلہ دوسرے مسئلہ سے الگ نہیں یہاں ایک مسئلہ کے ساتھ دوسرے بہت سے مسائل وابستہ ہوتے ہیں۔ جو شخص کسی مسئلہ کو اس طرح چھیڑے کہ اس نے دوسرے مسائل کی رعایت نہ کی ہو وہ بدترین مجرم ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی حد پرنہیں رکا، اپنی نا اہلی کے باوجود وہ اپنی حد سے باہر نکل گیا۔
ٹوکیو میں مجھے ٹرانزٹ پسنجر کے طور پر دو دن ٹھہر نا تھا۔ ایسے مسافروں کا انتظام ائیر کمپنی کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ٹوکیو ائیر پورٹ پر اترکر میں نے ہوٹل کے رجسٹریشن کارڈ کی بابت دریافت کیا۔ جواب ملا کہ آپ فلاں جگہ چلے جائیے، وہاں بورڈ پر آپ کا کارڈ لگا ہوا ہوگا۔ متعلقہ جگہ پر پہنچا تو وہاں ٹائپ کیا ہوا رجسٹریشن کارڈ پیش گی طور پر موجود تھا۔ اس طرح کی باقاعدگی میں نے اب تک کسی اور ائیر پورٹ پر نہیں دیکھی۔
ائیر پورٹ سے ہر آدھ گھنٹہ پر بسیں ہوٹل اور شہر جاتی ہیں۔ میں میجر امولک سنگھ کے ساتھ باہر نکلا تو ایک بس کھڑی ہوئی تھی۔ اس پر لکھا ہوا تھا ہوٹل نریتا ٹوکیو (Narita Tokyo) ہم اس پر بیٹھ گئے۔ بس چلتی ہوئی ایک ہوٹل پر رکی۔ اندر داخل ہو کر اپنا کارڈ دکھایا تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ کا رجسٹریشن ہوٹل نکونریتاNikko Narita))میں ہے۔ اب دوسری بس سے دوبارہ ائیر پورٹ واپس آنا پڑا۔ ائیر پورٹ سے ایک اور بس ملی۔ اس نے ہمیں ہمارےہوٹل میں پہنچایا۔
یہ غلطی ہوٹل کے نام میں مشابہت کی وجہ سے پیش آئی۔ اسی طرح زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ آدمی محض لفظی مشابہت کی وجہ سے ایک بے حقیقت چیز کو حقیقت سمجھ لیتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پوری تحقیق کر کے چیزوں کو اختیار کرے۔ یا کم از کم اس کے اندر یہ حوصلہ ہو کہ جب اس کی غلطی اس پر واضح ہو جائے تو وہ فور اًصحیح چیز کی طرف پلٹ آئے۔
نکو ہوٹل میں میرا قیام کمرہ نمبر ۵۴۲ میں تھا۔ ٹوکیو ایک بے حدمشینی شہر ہے۔ یہاں کی پوری زندگی ایک بہت بڑی مشین نظر آتی ہے۔ میرے پاس ایک مہینہ کا ویزا تھا۔ یہاں کا اسلامک سنٹر مجھے مزید ٹھہرانا چاہتا تھا اور ٹوکیو میں میرا پروگرام رکھنا چاہتا تھا۔ مگر ٹوکیو کی مشینی زندگی سےمجھے بہت جلد وحشت ہو گئی۔ میں یہاں زیادہ ٹھہرنے کے لیے اپنے آپ کو آما دہ نہ کر سکا۔
"اسلامک سنٹر جاپان " ٹوکیو میں واقع ہے (6169-160-03 Tel) وہ ۱۹۶۵ میں قائم ہوا۔ اس کی باقاعدہ عمارت ۱۹۸۲ میں تعمیر ہوئی۔ اس نے جاپانی زبان میں ۲۵ کتا بیں چھاپی ہیں۔ اس کا ایک سہ ماہی جرنل بھی جاپانی زبان میں نکلتا ہے جس کا نام السلام ہے۔ اس کا سرکولیشن تین ہزا ر ہے۔ اس کے تحت بچوں کا اسکول قائم ہے۔ سمینار وغیرہ منعقد کیے جاتے ہیں۔ وہ نکاح اور دوسری دینی ضرورتیں پورا کرنے کا مرکز بھی ہے۔ وغیرہ
جاپان میں کسی بھی قسم کا مذہبی امتیاز نہیں ہے۔ چنا نچہ بر ابر کچھ نہ کچھ افراد اسلام قبول کرتے رہتے ہیں۔ مگر دوسرے ملکوں کی طرح، یہ سب اپنے آپ ہور ہا ہے۔ سنٹر کے تعارف نامہ میں اس کا ذ کر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس میں ہمارا-----۔ اسلام میں خودکشش ہے اور وہ خود اپنی طاقت سے پھیلتا ہے:
We do not claim any credit. Islam itself has the attracting power.
۱۹۰۹ میں پہلے جاپانی مسلمان نے حج کیا تھا۔ پہلی مسجد کو بے میں ۱۹۳۵ میں بنائی گئی۔ ۱۹۵۲ میں پہلی جا پانی مسلم تنظیم بنی جس کا نام جاپان مسلم ایسوسی ایشن تھا۔ جاپان کی ۱۲۰ ملین آبادی میں مسلمانوں کی تعداد صرف ہزاروں میں ہے۔ تاہم مستقبل میں اسلام کی ترقی کی کافی امیدنظر آتی ہے۔
ہوٹل کے کمرہ میں نئے عہد نامہ (New Testament) کا ایک عمدہ نسخہ موجود تھا۔ یہ دو کالمی ا نداز میں چھپا تھا۔ بائیں کالم میں انگریزی انجیل اور دائیں کالم میں اس کا جاپانی ترجمہ چھپا ہوا تھا۔ یہ "جاپان بائبل سوسائٹی" کی طرف سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کے شروع میں یوحنا(۳: ۱۶) کی یک آیت کے کئی ترجمے دیے گئے تھے اور لکھا ہوا تھا کہ یہ آیت ۱۴۰۰ سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کی جاچکی ہے۔ وہ آیت عربی کے ترجمہ کے مطابق یہ تھی: لأنه هكذا أحب الله العالم حتى بذل ابنه الوحيد لكى لا يهلك كل من يؤمن به بل تكون له الحياة الأبدية۔
میں نے سوچا کہ یہ بھی کتنا الم ناک واقعہ ہے کہ ہلاکت سے بچنے کا جھوٹا نسخہ ساری دنیا میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ مگر ہلاکت سے بچنے کا جو سچا نسخہ ہے اس کو اہلِ عالم تک پہنچانے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں۔
ہوٹل میں ایک نہایت نفیس قسم کی رنگین چھپی ہوئی کتاب تھی۔ اس کا نام تھا جاپان آج (Japan Now) اس میں جاپانی زندگی کے مختلف مناظر بے حد عمدہ چھپائی کے ساتھ موجود تھے۔ ہر چیز نہایت پرکشش دکھائی دے رہی تھی۔ یہ " جاپانی جنت" کا تعارف تھا۔ مگر جب میں ٹوکیوکی سٹرکوں پر نکلا تو یہ جاپانی جنت کہیں موجود نہ تھی۔ بے شمار مسائل نے عملاً اس جنت کو بے معنی بنا رکھا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی یہ زمین بے حد حسین ہے۔ اس میں وہ تمام امکانات رکھ دیے گئے ہیں جن کے ذریعہ یہاں ایک خوبصورت دنیا بنائی جاسکے۔ مگر جدید سائنسی طریقوں کو استعمال کر کے جب آدمی نے یہ خوبصورت دنیا بنالی تو معلوم ہوا کہ اس خوبصورت دنیا میں داخلہ اس کے لیے حرام ہے۔ لوگوں کے پاس خوبصورت مکانات ہیں۔ مگر ان مکانات کے اندر خوبصورت زندگی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا صرف جنت کا تعارف ہے،مگر وہ بذات خود جنت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظا ہر ہرقسم کے سامانوں کی موجودگی کے باوجود یہاں آدمی خوشیوں سے بھری ہوئی زندگی حاصل کرنے میں کا میاب نہیں ہوتا۔
جاپان نسبتاً ایک چھوٹا ملک ہے۔ رقبہ کے اعتبار سے ہندستان اس سے نو گنا زیادہ بڑا ہے۔مگر ہندستان آج مقروض ملک ہے، جب کہ جاپان ساری دنیا کو قرض دے رہا ہے۔ اس کی وجہ جاپان کی صنعتی ترقی ہے۔ عالمی تجارت (global trade) میں جاپان کا حصہ تقریباً ۲۵ فی صد ہے۔ جب کہ ہندستان کا حصہ عالمی تجارت میں ایک فیصد سے بھی کم (0.4 per cent)ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی، و شوہندو پریشدجیسی جماعتیں بھارتیتا کا نعرہ لگا رہی ہیں۔ ان کے لیے کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ ملک کو سائنس اور صنعت کے میدان میں اوپر اٹھائیں۔مگر وہ مذ ہبی جھگڑے بڑھانے ہی کو سب سے بڑا کارنامہ سمجھے ہوئے ہیں۔
ٹوکیو ابتداءً سولھویں صدی میں آباد کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ محض مچھلی پکڑنے کا گاؤں (Fishing village) تھا۔ اور اس کا نام (Yedo) تھا۔ ۱۸۶۸ میں اس کو ٹوکیو کے نام سے موسوم کیا گیا جس کا مطلب مشرقی را جد ھانی ہے۔ ۱۹۳۰ میں اس کی آبادی۵۰لاکھ کے قریب تھی۔
ٹوکیو بار بار زلزلہ سے دوچار ہوا ہے۔ ان میں ۱۹۲۳ کا زلزلہ سب سے زیادہ شدید تھا جس میں شہر کا بیشتر حصہ تباہ ہو گیا۔ اس کے بعد ٹوکیو کی نئی تعمیر کا سوال سامنے آیا۔ اب ماہرین ِتعمیرات نے نئے انداز میں شہر کی منصوبہ بندی کی تاکہ زلزلہ کی صورت میں اس کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ مثلاً چوڑی سڑکیں، بڑے بڑے پارک اور اسی طرح مکانات کو لو ہے اور سمنٹ کے ذریعہ اس طرح بنانا تا کہ وہ زلزلہ کے مقابلے میں ٹھہر سکیں
New buildings, designed to withstand earthquakes had frames of concrete and steel.
اس طرح جاپان کے اندرونی حالات نے اس کو یہ سبق دیا کہ اگر اس کو زندہ رہنا ہے تو اس کو حالات کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ ورنہ وہ تباہ ہو جائے گا۔
دوسری عالمی جنگ (۱۹۳۹-۴۵) میں فضائی بمباریوں کے نتیجے میں پھر شہر ٹوکیو کا بیشتر حصہ تباہ ہو گیا۔ اب دوبارہ ٹوکیو کی تعمیر نئے منصوبے کے تحت کی گئی۔ جاپان نے اپنے ناموافق حالات کے خلاف فریاد اور احتجاج کا انداز اختیار نہیں کیا۔ بلکہ غورو فکرکے ذریعے اپنی تعمیرِ نو کی تدبیر تلاش کی۔ یہ جاپانی کردار کا مخصوص پہلو ہے۔ اور اسی نے جاپان کی ترقی میں اہم حصہ ادا کیا ہے۔ ایک جا پانی مثل جاپانیوں کے مزاج کو بہت خوبی کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ اس کا ترجمہ انگریزی میں اس طرح کیا گیا ہے کہ آدمی فتح سے بہت کم سیکھتا ہے مگر شکست سے و ہ بہت زیادہ سیکھ لیتا ہے:
Man learns little from victory, but much from defeat.
اس سفر میں میرا جانا اور آنا دونوں جاپان کے راستے سے ہوا۔ اس دوران مختلف مراحل پر جن لوگوں سے گفتگو ہوئی ان کو تاریخ وار درج کرنے کے بجائے یکجائی طور پر یہاں درج کیا جاتا ہے۔
ایک سیاح سے ملاقات ہوئی۔ وہ پہلی بار جاپان کی سیاحت کے لیے آئے تھے اور اب واپس وطن جارہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جاپان کے بارے میں اپنا کوئی تجربہ بتائیے۔ انھوں نے کہا کہ آپ ایک ٹیکسی سے سفر کر رہے ہوں اور ٹیکسی ڈرائیور آپ کے بتائے ہوئےپتہ پر پہنچ نہ پا رہا ہو تو وہ ٹیکسی سے اتر کر پبلک بوتھ پر جائے گا اور اپنے پیسہ سے ٹیلیفون کر کے صحیح جگہ کو معلوم کر لے گا اور آپ کو عین دروازہ پر لے جاکر اتارے گا ایسا صرف جاپان میں ہوتا ہے:
A cab-driver failing to locate the address you want to reach, rings up from a public booth on his own account to get the exact location and drops you at the very doorstep. This happens only in Japan.
اس قسم کے واقعات کا تعلق قومی مزاج سے ہے۔ قوم کی تعمیر کے سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت مزاج سازی کی ہے۔ ہمارے یہاں کام کے نام پر بے شمار ہنگامےجاری ہیں، مگر اسی بنیادی کام کا کوئی وجود نہیں۔
جاپان کی اقتصادی ترقی کو باہر کی دنیا میں رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر خود جاپان کا باشعور طبقہ اس پر زیادہ خوش نہیں۔ میں نے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ جاپانی سے جاپان کی تجارتی ترقی کی تعریف کی۔ اس نے فوراً کہا، مگر جاپان بین اقوامی سطح پر وہ مقام حاصل نہ کر سکا جس کا وہ مستحق تھا:
But Japan did not succeed to secure the important place it deserves in the comity of nations.
اس کے نزدیک اس کا سبب یہ تھا کہ جاپان کے پاس خارجہ پالیسی کا فقدان (lack of foreign policy) ہے۔ میں نے کہا کہ کامیاب خارجہ پالیسی کے لیے کوئی بنیا ددر کار ہوتی ہے، اور وہ بنیا د جاپان کے پاس موجود نہیں۔ جاپان نے اپنی پچاس سالہ کوشش سے غیر معمولی اقتصادی ترقی حاصل کر لی۔ اب مسئلہ انٹرنیشنل رول ادا کرنے کا تھا۔ مگر یہاں جاپان اپنے آپ کو غیر مستعد پا رہا ہے:
But Japan finds itself unprepared for it.
اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کسی قوم کو زیادہ سے زیادہ جو چیز دے سکتی ہے وہ بینک بیلنس ہے۔ لیکن محض اقتصادی ترقی کے ذریعے کوئی قوم عالمی رول ادا کرنے کے قابل نہیں بنتی۔ اس کے لیے مزید کوئی طاقت درکار ہے۔ میں نے کہا کہ جاپان کی حیثیت آج اقتصادی سپر پاور (economic superpower) کی ہے۔ اور امریکہ کی حیثیت عسکری سپر پاور (military superpower) کی۔ امریکہ کی فوجی طاقت نے اس کو عالمی حیثیت دے دی ہے۔ جاپان کے لیے اس کا موقع نہیں کہ وہ فوجی میدان میں امریکہ کا حریف بن سکے۔ تاہم ایک زیادہ اہم میدان ابھی خالی ہے۔ اور وہ نظریاتی سپر پاور (ideological superpower) بننے کا میدان ہے۔ اس میدان میں عمل کر کے جاپان اپنے آپ کو عالمی لیڈر بنا سکتا ہے۔
مذکورہ جاپانی کے لیے یہ بات نئی تھی۔ اس نے پوچھا کہ جاپان کس طرح نظریاتی سپر پاور بن سکتا ہے۔ اس سلسلےمیں میں نے مختصر طور پر اسلام کی اہمیت بتائی۔