شرمندگی اور اعتراف
جان ڈرائیڈن (John Dryden) مشہور انگریز ادیب ہے۔ وہ ۱۶۳۱ میں پیدا ہوا، اور ۱۷۰۰ میں لندن میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کا ایک قول یہ ہے کہ–––– پشیمانی کمزورذہنوں کی نیکی ہے:
Repentance is the virtue of weak minds.
مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل بات اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اور وہ یہ کہ پشیمان نہ ہونا آدمی کےکمزور دماغ اور پست حوصلہ ہونے کی علامت ہے۔
اس دنیا میں سب سے بڑی نیکی اپنی غلطی کا اعتراف ہے۔ اگر آدمی کی فطرت زندہ ہو تو اس کا حال یہ ہو گا کہ کوتاہی کا کوئی واقعہ ہوتے ہی اس کی روح تڑپ اٹھے گی۔ اس کو شدت کے ساتھ ندامت اور پشیمانی کا احساس ہو گا۔ یہ اس کے دل پر اتنا بڑا بوجھ بن جائے گا کہ اس کو اس وقت تک چین نہیں ملے گا جب تک وہ یہ نہ کہہ دے کہ مجھ سے غلطی ہوئی۔
آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کیوں نہیں کرتا۔ اس کو اپنے کیے پر پشیمانی کیوں نہیں ہوتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کر کے میں دوسروں کی نظر میں اور اپنی نظر میں چھوٹا ہو جاؤں گا۔ مگر اس قسم کا ہر اندیشہ صرف حوصلے کی کمی کا ثبوت ہے۔ اگر آدمی اپنے اندر اعلیٰ حوصلہ رکھتا ہے تو وہ ایسے مواقع پر پشیمانی اور اعتراف سے کبھی رک نہیں سکتا۔
غلطی کیا ہے۔ غلطی یہ ہے کہ آدمی مسلمہ انسانی اصولوں کی خلاف ورزی کرے۔ وہ اعلیٰ معیارِ صداقت پر پورا نہ اترے۔ ایسی حالت میں جب ایک شخص غلطی کر کے اس پر شرمندہ نہ ہو۔ اور اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ذاتی بڑائی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ وہ اپنی ذات کو حقیقت سے زیادہ بلند سمجھتا ہے۔ حقیقت کا مجروح ہونا اسے گوارا ہے مگر خود اپنی ذات کا مجروح ہونا اس کو گوارا نہیں۔
غلطی ماننا غلطی کی اصلاح ہے۔ اور غلطی نہ ماننا غلطی کو باقی رکھنا ہے۔ اب آدمی خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ ان میں سے کون سا رویہ اس کے لیے زیادہ درست ہے۔