ایمان کا ذائقہ
امام مسلم بن الحجاج (۲۶۱ - ۲۰۶ ھ) بلند پایہ محدث ہیں۔ الجامع الصحیح یا الصحیح لمسلم ان کی مشہور کتاب ہے۔ اس کے "کتاب الایمان"میں ایک باب ان الفاظ کے تحت قائم کیا گیا ہے: باب الدليل على أن من رضي بالله ربا وبالإسلام ديناً و بمحمد رسولاً فهو مؤمن و إن ارتكب المعاصي الکبائر۔ اس باب کے ذیل میں انھوں نے یہ حدیث نقل کی ہے:
عن العباس بن عبد المطلب أنه سمع رسول الله صلى الله عليہ وسلم يقول: ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا۔(صحيح مسلم: 34)
عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ ایمان کا مزا چکھا اس شخص نے جو راضی ہو گیا اللہ کو رب بنانے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر۔
انسان کے اندر سب سے زیادہ طاقت ور جذبہ انا (ego) کا جذبہ ہے۔ آدمی ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے مگر وہ انا کی قربانی دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ موجودہ زمانےمیں ہیومنزم کی صورت میں اس نے آخری فتنہ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ہیومنزم کا مطلب ہے –––– تقدیر کی نشست کا خدا کے بجائے انسان کی طرف منتقل ہو جانا:
Transfer of seat from God to man.
ایمان در اصل اسی انا کی قربانی کا نام ہے۔ مومن اپنی انا کو دفن کر کے خارجی حقیقت کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ اس کے لیے راضی ہوتا ہے کہ اس کے اپنے لیے عبد کی سیٹ ہو اور خدا کے لیے معبود کی سیٹ۔ وہ خدا کے پیغمبر کو پیغمبر کا مقام دے اور خود اپنے لیے غیر پیغمبر کے مقام کو پسند کرلے۔ وہ صرف خدا کے دین کو دین کا درجہ دے اور خود دین وضع کرنے کے حق سے مکمل طور پر دست بردار ہو جائے۔
اس قسم کا ایک فیصلہ زبردست فکری انقلاب کے بعد ممکن ہوتا ہے۔ ایسا آدمی معرفت کا خصوصی ذائقہ چکھتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ اس خصوصی قربانی کے لیے بھی آمادہ نہ ہو سکے۔