خاموشی
عبد الله بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من صَمَت نَجا۔یعنی جو شخص چپ رہا اس نے نجات پائی (مسند أحمد: 6481) اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق، آپ نے فرمایا:الصمت حكم وقليل فاعله۔ یعنی خاموشی حکمت ہے۔ مگر بہت کم ہیں جو اس پر عمل کرتے ہوں (شعب الإيمان: 5027)
خاموشی بے عملی نہیں، خاموشی خود ایک اعلیٰ ترین عمل ہے۔ انسان کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا صاحبِ دماغ ہونا ہے۔ اور خاموشی اس بات کی علامت ہے کہ آدمی واقعۃ ً دماغ والا انسان ہے۔ وہ اپنے اندر ذہنی عمل کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چپ رہنا سوچنا ہے۔ جب آدمی چپ ہو تو وہ سادہ طور پر صرف چپ نہیں ہوتا، وہ اس وقت غور و فکر میں مشغول ہوتا ہے۔ اور غور و فکر بلاشبہ سب سے بڑا عمل ہے۔ بولنا اگر اعضاء و جوارح کی حرکت کا نام ہے تو چپ رہنا دماغ کی حرکت کا نام۔ بولنا اگر آدھا عمل ہے تو چپ رہنا پورا عمل۔
چپ رہنا سنجیدگی کی علامت ہے۔ جب آدمی چپ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ باتوں کوگہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ بولنے سے پہلے یہ سوچ رہا ہے کہ کیا بولے اور کیا نہ بولے۔ وہ دوسروں کو مخاطب بنانے سے پہلے خود اپنے آپ کو مخاطب بنا رہا ہے۔ وہ عاجلانہ اقدام کے بجائے سوچے سمجھے اقدام کا منصوبہ بنانے میں مشغول ہے۔
بولنا بے صبری ہے اور چپ رہنا صبر ہے۔ بولنا بے احتیاطی ہے اور چپ رہنا احتیاط ہے۔ بولنا غیر ذمہ دارانہ اندازہ ہے اور چپ رہنا ذمہ دارانہ انداز۔ بولنا محدودیت ہے۔ جو آدمی بول دے اس کی گویا حد آگئی، مگر چپ رہنا لا محدودیت ہے۔ جو آدمی چپ ہو وہ اتھاہ آدمی ہے۔ وہ ایسا آدمی ہے جس کی ابھی حد نہیں آئی۔ بولنے والا آدمی فوراً بول پڑتا ہے، اور چپ رہنے والا آدمی اس وقت بولتا ہے جب کہ تمام لوگ اپنے الفاظ ختم کر چکے ہوں۔
قیمتی چیز ہمیشہ کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بولنے والوں سے خدا کی زمین بھری ہوئی ہے، مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں جو چپ رہیں۔ جو بولنے سے زیادہ چپ رہنے کو محبوب رکھتے ہوں۔