علم کا حصول

صحیح مسلم میں کتاب المساجد و مواضع الصلاة (باب أوقات الصلوات الخمس) کے تحت ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے:

عن عبد الله بن يحیي بن أبي كثير قال سمعت أبي يقول: لَا ‌يُسْتَطَاعُ ‌الْعِلْمُ بِرَاحَةِ الْجِسْمِ۔

(صحيح مسلم: 612)

عبداللہ بن یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے۔ وہ کہتےہیں کہ میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ علم جسمانی راحت کے ساتھ نصیب نہیں ہوتا۔

 اس حدیث کا اگر چہ اوقات نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بظاہر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ امام مسلم نے اس کو اوقات الصلوۃ کے باب کے تحت کیوں نقل کیا۔ تاہم اس سے قطع ِنظر، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے حصول کے لیے جان فشانی کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم میں گہری بصیرت اس کے بغیر حاصل نہیں ہوتی کہ آدمی راحت و آرام سے بے پروا ہو کر اپنے آپ کو علم کے حصول کے لیے وقف کر دے۔

علم کے لیے تحقیق اور مطالعہ انتہائی حد تک ضروری ہے۔ جب آدمی صحیح معنوں میں تحقیق اور مطالعے میں لگتا ہے تو مصروفیتوں کی ایک پوری دنیا اس کے سامنے کھل جاتی ہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ کھانا، نیند، آرام اور دوسرے جسمانی تقاضوں کو نظر انداز کیے بغیر وہ اپنے تحقیق اور مطالعے کے کام کو جاری نہیں رکھ سکتا۔ اس وقت جو آدمی علم کا سچا طالب ہو وہ دوسرے تمام تقاضوں کو ثانوی قرار دے کر ہمہ تن علم کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔

مگر یہ بھی صرف ایک ظاہری بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم میں مشغول ہونا خود ایک راحت ہے۔ آدمی جب علم کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو یہ تجر بہ اس کے لیے اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ وہ  خودہر قسم کے آرام کا بدل بن جاتا ہے۔ اب جسمانی راحت کو چھوڑنا راحت کو چھوڑنا نہیں ہوتا چھوٹی راحت سے نکل کر زیادہ بڑی راحت کو پالینے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔

یہی وہ چیز ہے جو علم کے طالب کے لیے ہر قسم کی بے آرامی کو قابل ِقبول بنا دیتی ہے۔ وہ بڑی چیز کو پانے کی خوشی میں چھوٹی چیز کے کھونے کو برداشت کر لیتا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom