جنّت کی یافتیں
امریکہ کے سفر (دسمبر ۱۹۹۰ء) میں ایک صاحب سے آخرت اور جنت کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ جنت کا تصور یہ دیا گیا ہے کہ وہاں ہر طرف آرام ہی آرام ہو گا۔ ایسی جنت آدمی کے لیے خوشیوں کی جگہ نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ زندگی نام ہے چیلنج میں جینے کا۔ چیلنج کا مقابلہ کر کے آدمی کی روح کو ایک اہتزاز حاصل ہوتا ہے۔ آدمی ایک ایسی دنیا میں خوش نہیں رہ سکتا جہاں چیلنج کو ختم کر دیا گیا ہو۔
میں نے کہا کہ جو چیز انسان کو اہتزاز بخشتی ہے وہ چیلنج نہیں بلکہ چیلنج کا نتیجہ ہے۔ یہ نتیجہ دریافت ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی کو چیلنج پیش آتے ہیں۔ آدمی اس چیلنج کا سامنا کر کے ایک نئی یافت (Finding) تک پہونچتا ہے۔ یہ نئی یافت اس کو بے پناہ خوشی دیتی ہے۔ گویا اصل چیز یافت ہے۔ چیلنج تو اس کا محض ایک فارم ہے۔ اور فارم یقیناً ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔
جنت میں یا فتوں کا سلسلہ موجودہ دنیا سے بے حساب گنا زیادہ بڑھ جائے گا۔ مگر یہ یافتیں چیلنج اور جو کھم کے ذریعہ نہیں ہوں گی بلکہ شغلِ فاکہہ (یٰس: ۵۵) کے ذریعہ ہوں گی۔ آدمی ہر دن نئی لذت، نئی معنویت اور نئے حقائق دریافت کرے گا۔ یہ سلسلہ ابد تک جاری رہے گا، اس لیے اس کی خوشیوں کا سلسلہ بھی ابد تک باقی رہے گا۔ وہ کبھی ختم نہ ہو گا۔
چیلنج میں آدمی کو لذت اس لیے ملتی ہے کہ چیلنج کی صورت ِحال آدمی کو مشغولیت دیتی ہے۔ اس میں آدمی اپنی ذات کو بھر پور طور پر استعمال ہوتا ہوا پاتا ہے۔ اپنی ذات کو مشغول کرنا اور پھر اپنی کوششوں سے ایک چیز کو پالینا، چیلنج کی یہی صفت آدمی کے لیے چیلنج کو لذیذ بناتی ہے۔ یہ چیز آخرت میں مزید اضافےکے ساتھ جاری رہے گی۔
کسی چیز کا نیا ہونا اس کو آدمی کے لیے مرغوب بناتا ہے۔ یہ نیا پن دنیا میں محدود طور پر حاصل ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دنیا میں ہریافت کے ساتھ ایک رسک لگا ہوا ہے۔ یہ محدودیت اور یہ رسک موجودہ دنیا کی خوشیوں کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ آخرت میں نیا پن مزید اضافے کے ساتھ باقی رہے گا۔ مگر محدودیت اور رسک کا خاتمہ ہو جائے گا۔ آخرت کی دنیا میں لذت ہی لذت ہوگی اور خوشی ہی خوشی۔