مستقبل پر نظر
ایک غزوہ میں ایسا ہوا کہ مسلمانوں نے نہ صرف دشمن فوج کے مردوں کو قتل کیا بلکہ ان کے کچھ بچوں کو بھی مار ڈالا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ سخت ناراض ہوئے۔ آپ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ آج وہ حدسے گزر گئے اور بچوں کو قتل کر ڈالا۔ یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ یہ مقتول بچے کیا مشرکین کے بچے نہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بہترین لوگ مشرکین کی اولاد ہی تو ہیں۔ألَا إِنَّ خِيَارَكُمْ أَبْنَاءُ الْمُشْرِكِينَ (مسند أحمد: 15589)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مومن کی نظر ہمیشہ مستقبل پر ہوتی ہے۔ وہ حال سےاو پر اٹھ کر آگے کی طرف دیکھتا ہے۔ حتی کہ حال کی نا موافق باتوں پر اس امید میں صبر کرتا ہے کہ آئندہ نئے امکانات پیدا ہوں گے اور آج کا نا موافق کل کے موافق میں تبدیل ہو جائے گا۔
دنیا کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں امکانات کی کوئی حد نہیں۔ آج جو شخص انکار کر رہا ہے کل وہ اقرار کرنے والا بن سکتا ہے۔ آج جو شخص بظاہر دشمن بنا ہوا ہے اس میں آئندہ ایسی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں کہ وہ اپنے رویہ پر نظر ثانی کرے اور آپ کا دوست اور ساتھی بن جائے۔ حتی کہ باپ کا رویہ اگر ما یو سا نہ ہو تو مومن اس کے بیٹے سے امید قائم کر لیتا ہے کہ شاید وہ بڑا ہو کر حق کا اعتراف کرنے والا بن جائے۔
یہ دنیا موافق امکانات سے بھری ہوئی ہے۔ مگر موافق امکانات کو اپنے حق میں واقعہ بنانے کے لیے بلند حوصلگی اور عالی ظرفی درکار ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ آدمی دشمن اور دوست کی اصطلاحوں سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ وہ نفرت اور محبت کے جذبات سے بلند ہو کر رائے قائم کرے۔ اس بلند ہمتی کے بغیر ان امکانات کو استعمال کرنا ہرگز ممکن نہیں۔
ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے، اور دوسرا اس کا باطن۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چیز اپنے ظاہر کے اعتبار سے کچھ ہوتی ہے اور باطن کے اعتبار سے کچھ اور۔ عام انسان چیزوں کو صرف ان کے ظاہر کی حد تک دیکھتے ہیں۔ مومن وہ ہے جو چیزوں کو ان کے اندرونی امکانات کے اعتبار سے دیکھنے لگے۔