دعوت الی اللہ
مسلمان ختمِ نبوت کے بعد مقام ِنبوت پر ہیں۔مسلمانوں کو پیغمبر کی نیابت میں و ہی کام انجام دینا ہے جو پیغمبر نے اپنی زندگی میں براہِ راست انجام دیا تھا، ليكون الرسول شهيداًعليكم وتكونوا شهداء على الناس(2:143)
یہ کام شہادت علی الناس اور دعوت الی اللہ ہے۔ اس سے مراد نہ حکومتِ اسلامی کا قیام ہے اور نہ حضارتِ اسلامی کا احیاء۔ اس کا مقصد تمام تر انذار و تبشیر ہے۔ اس کا نشانہ یہ ہے کہ خدا کے بندوں تک خدا کا پیغام اس حد تک پہنچ جائے کہ کسی کے لیے قیامت کے دن کوئی عذر باقی نہ ر ہے۔رسلا مبشرین ومنذرين لئلا يكون للناس على الله حجةبعد الرسل(4:165)
اسلام میں حکومت اور اقتدار کی حیثیت شیئ آخر کی ہے۔ وہ امر مقصود نہیں ہے بلکہ وہ ایک امر موعود ہے۔وعد الله الذین آمنوا وعملوا الصالحات ليستخلفنهم فی الأرض(24:55) اہل ایمان کو اجر آخرت کے محرک کے تحت دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہے۔ البتہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس عمل کے دوران ایسے حالات پیدا کر دے گا جو اہل ایمان کود نیوی غلبے تک پہنچانے والے ہوں۔
اللہ کی نصرت کے تمام وعدے عملِ دعوت کی انجام دہی پر موقوف ہیں۔ اسی میں ملت اسلامیہ کی فوزوفلاح ہے۔ اسی میں عصمت من الناس کا راز چھپا ہوا ہے۔ حتی کہ امت ِمحمدی کا امت محمدی ہو نا عند اللہ اسی وقت متحقق ہوتا ہے جبکہ وہ دعوت الی اللہ کے اس کام کو انجام دے (المائدہ: ۶۷)
اس کام کی صحیح ادائگی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم کیا جائے۔ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایک بھاری قیمت دینی لازمی ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان مدعو قوموں کی زیادتیوں اور ایذا پر یک طرفہ صبر کریں۔ اس کے بغیر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے در میان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔ولنصبرنّ علىٰ ما آذیتمونا(14:12)
مسلمانوں کے جو قومی مسائل ہیں ان کے لیے کچھ لوگ علاحدہ پلیٹ فارم بنا سکتے ہیں۔مگر اس طرح کےامور کو دعوت کا عنوان دینادعوت کی نفی کرنا ہے۔ ان مسائل کا حقیقی حل یہ نہیں ہے کہ ان کو دعوت کی فہرست میں شامل کر دیا جائے۔ اس کے بجائے ہم کو یہ یقین و اعتماد پیدا کرنا ہوگا کہ اگرہم دعوت کا کام انجام دے دیں تو اس کے بعد ہمارے مسائل بھی لازمی طور پر حل ہو جائیں گے۔
مسلم ملکوں میں قانون اسلامی کے نفاذ یا غیر اسلامی حکمرانوں کے اخراج کے نام پر اسلامی جماعتوں اور قائم شدہ حکومت کے درمیان جو نزاع جاری ہے اس کو مکمل طور پر ختم کر نا ضرور ہی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسلامی تحریک غیر ضروری طور پر مسلم حکمرانوں کی حریف بن گئی ہے اور مسلم حکومتوں کا وه تعاون اسلامی دعوت کے عمل کے لیے نہیں مل رہا ہے جو معتدل حالات میں ملنا یقینی تھا۔ مسلم ملکوں کے لیے صحیح اسلامی طریق کار یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں سے سیاسی ٹکر اؤ نہ کرتے ہوئے ممکن مواقع کو دعوتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
ضروری دعوتی پروگرام
۱۔قرآن و حدیث اور سیرت کے ترجمے تمام زبانوں میں شائع کر کے عالمی سطح پر پھیلانا۔ یہ ترجمے صحیح اور معیاری زبان میں ہوں۔
۲۔جدید عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر ہر زبان میں تیار کرنا اور ان کو وسیع پیمانے پر پھیلانا۔ اس لٹریچرکو مثبت اور موضوعی انداز میں ہونا چاہیے۔
۳۔ایسے اجتماعات منعقد کرنا جس میں غیر مسلموں کو بھی شریک کیا گیا ہو۔ ان اجتماعات میں صرف دعوتی کلام کیا جائے۔ اقوام عالم کی عداوتوں اور سازشوں پر شکایات و احتجاج سے آخری حد تک پر ہیز کیا جائے۔
۴۔ایسے ادارے کا قیام جہاں مسلم نوجوانوں کو دعوتی انداز میں تربیت دی جائے اور ان کو داعی کی حیثیت سے زندہ رہنے کے لیے تیار کیا جائے۔
۵۔دعوتی میدان میں کام کرنے والوں کا سالانہ یا اس سے کم مدت میں اجتماع کیا جائے تا کہ ایک کے مشورے اور تجربے سے دوسرے کو فائدہ پہنچ سکے۔
۶۔مسلمانوں میں دعوتی ذہن اور تعمیری طرزِ فکر پیدا کرنے کے لیے مستقل جرائد مختلف زبانوں میں جاری کرنا۔ ان جرائد کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کوہر قسم کے غیر دعوتی مباحث سے یکسرپاک رکھا جائے۔