قومی یک جہتی کا مسئلہ

قومی ایک جہتی کی اہمیت سب سے پہلے ہندستان کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نےمحسوس کی۔ انھوں نے اس موضوع پر پہلی باقاعدہ کا نفرنس بلائی۔ اس کا اجلاس نئی دہلی میں ۲۸ ستمبر تا یکم اکتوبر ۱۹۶۱ کو ہوا۔ اس کا نفرنس کے فیصلے کے مطابق، اس خاص مقصد کے لیے  یک مستقل تنظیم نیشنل انٹگریشن کونسل (قومی یک جہتی کونسل) کے نام سے قائم کی گئی۔

 اس کو نسل کا پہلا کام یہ تھا کہ وہ تمام متعلقہ مسائل کا جائزہ لے کر ضروری سفارشیں حکومت کے سامنے پیش کرے۔ اس کے مطابق، اس کا اجلاس ۲-۳ جون ۱۹۶۲ کو ہوا۔ اس اجلاس نے طے کیا کہ لسانی تعصب، علاقائی علاحدگی پسندی اور فرقہ واریت، یہ تین چیزیں قومی یک جہتی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے  ان رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ صرف کی جائے۔

۱۹۶۲ کے اس اجتماع کے بعد کئی سال تک نیشنل انٹگریشن کونسل کی کوئی مزید سرگرمی نہ ہوسکی۔ آخر کار مسز اندراگاندھی نے اپنے اقتدار کے زمانے  میں اس کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔ چناں چہ  ۲۰ - ۲۱ جون ۱۹۶۸ کو سرینگر میں اس کا اجلاس بلایا گیا۔ سرینگر کی ٹھنڈی فضا میں نیشنل انٹگریشن کونسل کا یہ اجلاس ختم ہوا تو لوگوں نے اس سے کافی امید یں وابستہ کیں۔ ناردرن انڈیا پتریکا(۲۳ جون ۱۹۶۸) نے اس کی رپورٹ دیتے ہوئے اس پر یہ سرخی قائم کی کہ فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے  دور رس اقدامات:

Far-reaching steps to end communalism.

سرینگر کے اجلاس میں نیشنل انٹگریشن کونسل نے کچھ سفارشات اتفاق رائے سے منظور کیں۔ ان سفارشات کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر سطح پر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثلاً حکومت اس مقصد کے لیے  سراغ رسانی کے خصوصی یونٹ قائم کرے۔ اس معاملے  میں جو سر کاری افسران اپنے فرائض سے کوتاہی کرتے ہوئے پائے جائیں ان کو سزادی جائے۔ فرقہ وارانہ جھگڑوں کی سماعت کے لیے  خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔ قانون تعزیرات ہند کی دفعہ ۱۵۳ میں ترمیم کر کے فرقہ وارانہ سرگرمیوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی بھرتی میں کسی قسم کا امتیاز نہ برتاجائے۔ تیوہاروں کو مشترک طور پر منانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ وغیرہ

 اس طرح قومی یک جہتی یا نیشنل انٹگریشن کی کوششوں پر اب ۳۰ سال گزرچکے ہیں۔ مگر اب تک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس مدت میں قومی کشیدگی اور قومی اختلافات اس سے بھی زیادہ ہو گئے جو ۳۰ سال پہلے ہمارے ملک میں پائے جاتے تھے۔

 میں نے اس موضوع پر کافی غور کیا ہے اور اس معاملے  میں دوسرے ملکوں کے حالات کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ آخر کار میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قومی یک جہتی نہ ہونے کا جو اصل سبب ہے اس کو دور کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر ملک کے اندر قومی جہتی کی فضا پیدا نہیں ہو سکتی۔ اوروہ سبب ہے شعور کی کمی۔

 اس صورت حال کی اصلاح کے لیے  عام طور پر جو تجویزیں پیش کی جاتی ہیں وہ تقریباً سب کی سب سسٹم یا نظام سے تعلق رکھتی ہیں۔ مگر اس طرح کی سماجی خرابیاں سسٹم کے بدلنے سے درست نہیں ہوتیں۔ ان خرابیوں کا تعلق تمام تر افراد سے ہے۔ یہ دراصل افراد ہیں جو سسٹم کو چلاتے ہیں۔ اس لیے  سسٹم کو درست کرنے کے لیے  افراد کو درست کرنا ہوگا۔

کسی سماج کا درست ہونا تمام تر اس پر منحصر ہے کہ اس کے افراد کا مزاج درست ہو۔ مثال کے طور پر جاپان کے افراد کا مزاج یہ ہے کہ ان کے اوپر کوئی سردار مقرر کیا جائے تو وہ فوراً اس کی ما تحتی کو قبول کرلیتے ہیں۔ اس لیے  جاپان کے سماج میں اتحاد ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کے افراد کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی کی ماتحتی کو قبول نہیں کرتے، اس لیے  ہمارے ملک کےسماج میں اتحاد نہیں۔

میں نے اس سلسلہ میں جاپان کی تاریخ کا کافی مطالعہ کیا۔ میں نے پایا کہ جاپان میں یہ مزاج تعلیم کے ذریعہ آیا۔ جاپان میں ہر شخص تعلیم یافتہ ہے۔ مزید یہ کہ اسکول کی سطح پر ان کےیہاں تعلیم کا نہایت اعلیٰ انتظام ہے۔ اس طرح جاپان کا ہر شخص نہ صرف تعلیم یافتہ ہے بلکہ وہ شعوری حیثیت سے بیدار ہے اور اپنے اندر تعمیری ذہن رکھتا ہے۔

 اس مطالعہ کے بعد، نیز دوسر ے تاریخی پہلوؤں کا مطالعہ کرنے کے بعد میری قطعی رائے ہے کہ ہندستان کے سماجی جھگڑوں کا واحد حل یہ ہے کہ قوم کو صد فی صد تعلیم یا فتہ بنایا جائے۔قوم کے ہر فرد کے اندر تعمیری شعور پیدا کیا جائے۔ جس دن ایسا ہو گا اسی دن ملک کے اندر وہ چیز بھی پیدا ہو جائے گی جس کو قومی یک جہتی کہا جاتا ہے۔

 اس نظریہ کی صحت کی ایک مثال خود ہمارے ملک میں موجود ہے۔ ہندستان میں عمومی سطح پر لٹریسی، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) کے بیان کے مطابق ۳۶ فیصد ہے۔ مگر ہندستان کی ایک جنوبی ریاست کیرلا میں لٹریسی تقریباً صد فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ بقیہ ہندستان میں طرح طرح کے جھگڑے جاری رہتے ہیں۔ مگر کیر لا کی ریاست سماجی جھگڑوں سے تقریباً پاک ہے۔ یہ تجربہ بتاتا ہے تعلیم کی کمی سے شعوری ناپختگی پیدا ہوتی ہے۔ اور تعلیم کا اضافہ لوگوں کے اندر شعوری بالیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ اور جہاں شعوری بالیدگی آجائے وہاں غیر ضروری جھگڑے اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔

 تمام ترقی یافتہ ملکوں میں لازمی تعلیم کا اصول رائج ہے۔ ہر ترقی یافتہ سماج میں گورنمنٹ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ ہر شخص کو تعلیم یافتہ بنائے۔ چناں چہ  ان قوموں اور سماجوں میں ہر آدمی تعلیم یافتہ ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جس نے ترقی یافتہ سماج اور پس ماندہ سماج میں وہ فرق پیدا کر رکھا ہے جس کو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔

انڈیا میں ابھی لازمی تعلیم کے اصول کو رائج نہ کیا جا سکا۔ آزادی کے بعد دستور ہند میں اس سے کمتر درجہ میں ایک معیار طے کیا گیا تھا۔ مگر اس کو بھی ابھی تک زیرِ عمل نہ لایا جاسکا۔ انسائیکلو یڈیا برٹانیکا نے اس کو ان الفاظ میں ریکارڈ کیا ہے––– انڈیا اِس دستوری ہدایت کو زیرعمل لانے میں ناکام رہا ہے کہ وہ چھ سال سے چودہ سال کی عمر کے تمام بچوں کے لیے  عمومی تعلیم کا انتظام کرے:

India has failed to carry out the constitutional directive of providing universal education for children in the age group of six to 14. (6/394)

میں سمجھتا ہوں کہ ہندستانی سماج میں قومی یک جہتی پیدا نہ ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے۔ ہمارا سماج تعلیم میں پچھڑا ہوا ہے۔ اس لیے  وہ شعور میں پچھڑا ہوا ہے۔ اور جو قوم شعور میں پیچھے ہو جائے وہ سماجی تعمیر میں بھی اسی نسبت سے پیچھے ہو جائے گی۔

 تاہم اس کام کو صرف حکومت پر چھوڑنا درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر ہندستانی کو اس میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ ایک آدمی اگر صرف ایک آدمی کو پڑھا سکتا ہے تو وہ ایک آدمی کو پڑھائے۔ا یک آدمی ابتدائی سطح پر بچوں کی تعلیم کا انتظام کر سکتا ہے تو وہ ابتدائی سطح پر بچوں کی تعلیم کا انتظام کرے۔ کچھ لوگ اسکول اور کالج کھولنے کی طاقت رکھتے ہوں تو وہ اسکول اور کالج کھول کر نوجوانوں کی تعلیم کابندو بست کریں۔ غرض ہر آدمی اپنے اپنے حالات کے اعتبار سے اس مہم میں شریک ہو جائے۔

 جب یہ تعلیمی مہم کامیاب ہوگی اور قوم صدفی صد تعلیم یافتہ ہو جائے گی تو اس وقت نہ صرف ملک میں قومی یک جہتی آچکی ہوگی بلکہ مزید تمام اوصاف کو حاصل کر کے ہمارا سماج ایک ترقی یافتہ سماج بن جائے گا جس کا ہم پچھلے پچاس سال سے انتظار کر رہے ہیں۔

ایک اور پہلو

 ۳۰برس کی کوششوں کے باوجود ہمارے ملک میں قومی ایکتا نہیں آئی۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ قومی ایکتا لانے کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ درست نہ تھا۔

اس مدت میں ملک کے لیڈروں اور دانشوروں پر یہ خیال چھایا رہا ہے کہ "ایکتا" لانے کے لیے "انیکتا " کوختم کرنا پڑے گا۔ اسی ذہن کے تحت اس پر زور دیا جارہا ہے کہ ملک میں سول میرج قانون نافذ کیا جائے۔ تمام لوگوں کو ایک کلچر میں ڈھال دیا جائے۔ جو لوگ زیادہ انتہا پسند ہیں پر جوش طور پر کہتے ہیں کہ تمام لوگ رام کو اپنا پروج مانیں۔ تمام لوگ اپنے کو ہندو کہیں۔ وغیرہ۔اس کو یہ حضرات تہنید (Indianisation) کہتے ہیں۔ مگر اس قسم کی یکسانیت عملاً  ناممکن ہے۔اس لیے  وہ اب تک وقوع میں بھی نہ آسکی۔

 کناڈا قومی ایکتا کے لیے  ایک مثالی ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالاں کہ کناڈا میں اسی طرح مختلف مذہب اور تہذیب کے لوگ رہتے ہیں جس طرح ہندستان میں۔ کناڈا میں یہ قومی ایکتاجس طرح حاصل کی گئی ہے، اس کو وہ لوگ کئی کلچریت (multiculturalism) کہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے مختلف فرقوں میں ایکتا لانے کے لیے  یکساں کلچر (uniculturalism) کی تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ وسیع تر قومی ڈھانچے کے اندر ہر ایک کی جدا گانہ اکائی کو مان لیا۔ اسی اصول پر چل کر کنا ڈاترقی کر رہا ہے۔ ہندستان کی ترقی بھی اسی طرح ہو سکتی ہے کہ وہ اس آزمودہ طریقےکو اپنے یہاں اختیار کرلے۔

۱۳ نومبر ۱۹۹۱ کوشولا پور(مہاراشٹر)میں قومی ایکتا کے موضوع پر ایک اجتماع تھا۔ اس میں مختلف لوگوں نے تقریریں کیں۔ شولا پور کی ایک معروف شخصیت اور سابق ایم ایل اے شری تلسی د اس جادھو نے بھی تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اس نقطۂ نظر کی حمایت کی کہ اصل چیز موافقت اور رواداری کا مزاج ہے۔ اگر یہ مزاج ہو تو بڑے بڑے اختلاف کے باوجود باہمی میل ملاپ قائم ہو سکتا ہے۔

انھوں نے اپنے گھر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میرے باپ نان ویجیٹرین تھے اور میری ماں و یجیٹرین تھی۔ اس کے باوجود دونوں میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ میں نے اپنے گھر میں دیکھا ہے کہ میری ماں روزانہ صبح اٹھ کر نہاتیں اور میرے باپ کے لیے  میٹ بنا کر اس کو کھانے کی میز پہ رکھ دیتیں۔ اس کے بعد وہ دوبارہ نہا تیں اور اپنے لیے  دال سبزی والا کھانا بناتیں۔ اسی طرح وہ آخر عمر تک کرتی رہیں۔ کھانے پینے کے معاملے  میں دونوں کے درمیان اتنا بڑا اختلاف تھا۔ مگر دونوں زندگی بھر عزت اور محبت کے ساتھ مل کر رہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ خاندانی ایکتا ہو یا قومی ایکتا، ہر ایک کا تعلق ذہنی رویہ mental attitude))سے ہے نہ کہ کلچر کی یکسانیت سے۔ انسانوں کے درمیان مختلف قسم کے فرق ہوتے ہیں۔ حتی کہ ایک گھر کے اندر چند آدمی ہیں تو ان میں بھی طرح طرح کا اختلاف ہوگا۔ اس کاحل اختلاف کو مٹانا نہیں ہے۔ بلکہ اختلاف کو گوارا کرنا ہے۔ اختلاف کو مٹانے کی کوشش اختلاف کوبڑھاتی ہے۔ جبکہ اختلاف کو گوارا کرنے کی پالیسی اختلاف کو عملاً ختم کر دیتی ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom