تقویٰ کیا ہے

روایات میں آیا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت اُبی بن کعب سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کیا آپ کبھی کانٹے دار جھاڑیوں والے راستے سے گزرے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ پھر آپ نے اُس وقت کیا کیا۔ عمر فاروق نے کہا کہ میں نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور کانٹوں سے بچتا ہوا گزر گیا (شمّرتُ واجتہدتُ)۔ ابی ابن کعب نے کہا کہ یہی تقویٰ ہے (قال: فذالک التقویٰ

اِس روایت سے تقویٰ کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ تقویٰ دراصل یہ ہے کہ آدمی اِس دنیا میں ہر قسم کے فتنوں سے بچتاہوا گزر جائے۔ تقویٰ کو ایک لفظ میں محتاط طریقہ (cautious approach) کہا جاسکتا ہے۔ دنیا میں ہر وقت مختلف قسم کی ترغیبات (temptations) ہوتی ہیں، مختلف قسم کے چھوٹے یا بڑے فتنے پائے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں، تقویٰ کی روش یہ ہے کہ آدمی اُن سے بچتا ہوا گزرے، وہ ہر موقع پر پرہیزگارانہ طریقہ، یا محتاط طریقہ اختیار کرے۔

تقویٰ کی اِس روش پر قائم رہنے کے لیے دو چیزیں بہت زیادہ ضروری ہیں — سنجیدگی اور محاسبہ،یعنی چیزوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا اور ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا۔ یہی دونوں صفتیں اِس بات کی ضامن ہیں کہ آدمی تقویٰ کے راستے پر قائم رہے گا، وہ غیر متقیانہ روش اختیار کرنے سے بچا رہے گا۔

تقویٰ کسی ظاہری وضع قطع کا نام نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ تقویٰ کا تعلق دل سے ہے (التقویٰ ہٰہنا، و یُشیر إلیٰ صدرہ۔ صحیح مسلم، کتاب البرّ) جو آدمی گہرائی کے ساتھ معاملات پر غور کرے گا، وہی تقویٰ کی روش پر قائم رہے گا۔ تقویٰ حقیقت میں ایک داخلی کیفیت کا نام ہے۔ داخلی طورپر اگر آدمی متقی نہ ہو تو کوئی بھی خارجی فارم خدا کے نزدیک اُس کو متقی کا درجہ نہیں دے سکتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ: إنّ اللہ لا ینظر إلی أجسامکم ولا إلی صُورکم، ولٰکن ینظر إلی قلوبکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ، باب تحریم ظلم المسلم

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom