عمر اور صحت
ڈاکٹر شہزاد علی میرٹھ (یوپی) کے رہنے والے تھے۔ 6 فروری 2009 کو تقریباً 45 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ پہلی بار جب میں اُن سے ملا تھا تو بظاہر وہ بالکل تندرست اور صحت مند نظر آتے تھے۔ بعد کو اُنھیں کینسر کی بیماری ہوگئی۔ علاج کے باوجود مرض بڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ صاحب فراش ہوگئے۔ آخری زمانے میں اُن کا حال یہ تھا کہ وہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بن چکے تھے۔ ان کا نظامِ ہضم اتنا زیادہ بگڑ چکا تھا کہ سادہ غذا بھی وہ نہیں لے سکتے تھے، حتی کہ پانی پینا بھی اُن کے لیے سخت مشکل ہوگیا تھا۔اُس زمانے میں کوئی شخص ان کی عیادت کے لیے آتا تو وہ اُس سے کہتے کہ تم میرے بارے میں نہ سوچو، بلکہ خود اپنے بارے میں سوچو۔ تم شکر کرو کہ تم کو صحت مند جسم حاصل ہے۔ تم کھانا کھاتے ہو اور پانی پیتے ہو اور زمین پر چلتے ہو۔ یہ سب چیزیں خدا کا عطیہ ہیں۔ وہ جب چاہے، اِس عطیہ کو چھین لے اور پھر تمھارے پاس کچھ بھی باقی نہ رہے۔
انسان کو ایک صحت مند جسم ملا ہوا ہے۔ انسان کو پیدا ہونے کے بعد یہ صحت مند جسم بظاہر اپنے آپ مل جاتا ہے، اِس لیے وہ اُس کو فار گرانٹیڈ(for granted) طور پر لے لیتا ہے۔ وہ کبھی سوچتا نہیں کہ یہ صحت مند جسم سرتاسر خدا کا عطیہ ہے۔ اِس عطیہ کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے خدا کے آگے جھک جانا چاہیے۔ یہی معاملہ عمر کا ہے۔ آدمی جب تک زندہ ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ زندگی ہمیشہ باقی رہے گی۔ وہ کبھی اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی بھول ہے۔
یہی ہر عورت اور ہر مرد کا امتحان (test) ہے۔ کامیاب شخص وہ ہے جو زندگی سے زیادہ موت کے بارے میں سوچے، جو ہر ملی ہوئی چیز کو خداوند ِ عالم کا عطیہ سمجھے۔ یہی وہ انسان ہے جو امتحان میں کامیاب ہوا۔ اِس کے برعکس، جو انسان خدا کا اعتراف نہ کرے اور موت کو بھلائے ہوئے ہو، وہی وہ شخص ہے جو ا متحان میں ناکام ہوگیا۔ پہلے انسان کے لیے ابدی جنت ہے اور دوسرے انسان کے لیے ابدی جہنم۔