شور، شور، شور
شور(noise) ایک مسئلہ ہے۔ شور ایک برائی ہے۔ شور ایک کثافت ہے۔ مو جودہ زمانے میں جن چیزوں کو کثافت سمجھا جاتا ہے، اُن میں سے ایک شور کی کثافت (noise pollution) بھی ہے۔ شور اُسی طرح تباہی پیدا کرتا ہیجسطرح کوئی بم دھماکہ (bomb explosion) تباہی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ شور کے دھماکے اور بم کے دھماکے میں صرف ظاہری فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے اِن دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
موجودہ زمانے میں شور کا مسئلہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے— لاؤڈ اسپیکر کا شور، جلسوں اور نعروں کا شور، مشینوں کا شور، گاڑیوں کا شور، ہارن کا شور، ریڈیو اور موبائل کاشور، وغیرہ۔قدیم زمانے میں گدھے کو شور کرنے والا حیوان سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسان اُس سے ہزار گنا زیادہ شور کرنے والا حیوان بن گیا ہے۔
شور کوئی سادہ چیز نہیں۔ شور کسی انسان کو فرشتوں کی صحبت سے محروم کردیتا ہے۔ اور جو انسان فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجائے، وہ نہایت آسانی کے ساتھ شیطانوں کا ہم نشیں بن جاتا ہے۔ فرشتے وہ نہ دکھائی دینے والی طاقت ہیں جو کسی عورت یا مرد کو برائی سے بچاتے ہیں۔ فرشتوں کی صحبت کسی انسان کو جنتی شخصیت بناتی ہے۔ جو انسان فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجائے، وہ لازمی طورپر جہنمی شخصیت بن کر رہ جائے گا۔ ایسے لوگوں کو جنت کی خوشبو کبھی نصیب نہ ہوگی۔
جنت وہ معیاری دنیا ہے جہاں شور نہ ہوگا۔ شور اور جنت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسی حالت میں جو لوگ شور کلچر(noise culture) کو اختیار کریں، وہ گویا کہ اپنے آپ کو جنت کے لیے غیر مستحق بنا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا صرف ایک انجام ہے، وہ یہ کہ ایسے لوگوں کو جہنم کے پُرشور مسکنِ شیاطین (pandemonium) میں ڈال دیا جائے، جہاں وہ ابدی طورپر شور وغوغا کی عذاب گاہ میں پڑے رہیں اور کبھی اُس سے نکل نہ سکیں۔