عمل کی تزئین
ابلیس، انسان کا دشمن ہے۔ لیکن ابلیس کویہ اختیار نہیں کہ وہ انسان کے خلاف کوئی جارحانہ (agressive) کارروائی کرے۔ابلیس کے بس میں صرف ایک چیز ہے، اور وہ ہے انسان کے ذہن میں وسوسہ ڈالنا، انسان کو فکری اعتبارسے بہکانا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے خلاف ابلیس کی کارروائیاں ہمیشہ ذہنی سطح(intellectual level) پر ہوتی ہیں، نہ کہ جسمانی سطح (physical level) پر۔ ابلیس کے فتنوں سے بچنے کے لیے انسان کو ذہنی تحفظ کی ضرورت ہے، نہ کہ جسمانی تحفظ کی۔
شیطان کی وسوسہ اندازی کا طریقہ کیا ہے، اس کو قرآن میں تزئین اعمال (الحجر: 39) کہاگیا ہے، یعنی برے عمل کو خوب صورت بنا کر دکھانا۔ شیطانی تزئین کا یہ عمل کس طرح ہوتا ہے۔ اُس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی عمل کے حق میں ایک بے بنیاد دلیل کو مضبوط دلیل کے طورپر پیش کیاجائے۔
قرآن کے مطابق، ابلیس نے آدم کی تخلیق کے وقت کہا تھا کہ میں تمام انسانی نسل کو بہکاؤں گا۔ میں تمام انسانوں کے ذہن کو اپنی تزئین کے ذریعے متاثر کرکے اُنھیں ایسا بنادوں گا کہ وہ غلط استدلال کو صحیح استدلال کے روپ میں دیکھیں گے:
I will make people see false argument as valid argument.
شیطان کی طرف سے فکری گم راہی کا یہ عمل پوری انسانی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ گھریلو زندگی سے لے کر باہر کی زندگی تک ہر جگہ اس کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کے اعتبار سے برائی میں مبتلا رہتے ہیں اور اس کی تبریر (justification) کے لیے وہ خوب صورت الفاظ پالیتے ہیں۔ وہ اپنے منفی عمل کو مثبت الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنے تخریبی کام کے لیے تعمیری الفاظ پالیتے ہیں۔ وہ اپنی انسان دشمن سرگرمیوں کو انسان دوست سرگرمیوں کا عنوان دے دیتے ہیں۔ اِسی کا نام تزئین ہے، اور یہ تزئین ہمیشہ ابلیس کی مدد سے انجام پاتی ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو انسانوں کی اکثریت نے اپنے دشمن کو اپنا دوست بنا لیا ہے۔