سب سے بڑی عبادت سے محرومی
ہر آدمی جانتا ہے کہ اس کی زندگی کی تعمیر میں اس کے والدین کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اِس اعتبار سے، ہر آدمی اپنے والدین کی تعریف کرتا رہتا ہے۔ لیکن ایسے عورت اور مرد نہیں ملتے جو یہ جانتے ہوں کہ ان کی زندگی کی تعمیر میں پوری انسانیت کا حصہ ہے۔ اِس معاملے میں والدین کا حصہ اگر ایک فی صد ہے تو انسانیت ِ عامہ کا حصہ نناوے فی صد۔ لیکن کوئی شخص نہ اِس حقیقت کو جانتا ہے اور نہ وہ اس کا اعتراف کرتا ہے۔
مثلاً جب آپ ایک روٹی کھاتے ہیں تو اس کے حصول میں آپ کے والدین کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہوتا ہے۔ اور انسانیتِ عامہ کا حصہ اس کے حصول میں ننانوے فی صد سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ ہزاروں سال کے لمبے تہذیبی عمل کے بعد یہ ممکن ہوا ہے کہ ایک انسان موجودہ صورتِ حال میں روٹی کو دریافت کرے اور اس کو اپنی غذا بنائے۔ یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کا ہے۔ مثلاً کپڑا اور مکان اور سواری اور مشین اور صنعت، وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ جو چیزیں انسان کو ملی ہوئی ہیں، اُن کا ایک حصہ وہ ہے جو براہِ راست عطیہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور دوسرا حصہ وہ ہے جس کی حیثیت بالواسطہ عطیہ کی ہے۔ براہِ راست عطیہ آئس برگ کے ٹپ (tip) کے مانند ہے اور بالواسطہ عطیہ آئی برگ (iceberg)کے مانند۔ بالواسطہ عطیہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا، لیکن وہ اپنی مقدار کے اعتبار سے، براہِ راست عطیہ سے بہت زیادہ ہے۔ لوگ صرف ظاہری عطیہ کو جانتے ہیں۔ اِس لیے وہ بہت کم شکر یا اعتراف کرپاتے ہیں۔ اگر وہ بالواسطہ عطیہ کو جان لیں تو ان کا شکر و اعتراف بہت زیادہ بڑھ جائے۔ وہ سارے انسانوں سے اُس سے بھی زیادہ محبت کرنے لگیں جو محبت وہ اپنے ماں باپ سے کرتے ہیں۔
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی عبادت شکر ِ کثیر اور اعترافِ کثیر ہے۔ لیکن جو انسان مذکورہ حقیقت سے بے خبر ہو، وہ شکر ِ کثیر کی عبادت سے بھی محروم رہے گا اور اعترافِ کثیر کی عبادت سے بھی۔