دعوت، دعوت، دعوت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم570 ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ 610ء میں آپ کو پیغمبری ملی۔ اِس کے بعد 23 سال تک آپ دنیا میں رہے، 13 سال تک مکہ میں اور 10 سال تک مدینہ میں۔ سیرت نگار اِن دونوں زمانوں کو مکی دور اور مدنی دور کانام دیتے ہیں۔ یہ تقسیم مقامِ کار کے اعتبار سے ہے، نہ کہ نوعیتِ کار کے اعتبار سے:
This division is in term of place of work, and not in term of nature of work.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل حیثیت یہ تھی کہ آپ داعی الی اللہ تھے (الأحزاب: 46)۔ دعوتی مشن ہی آپ کی پوری زندگی کا مشن تھا۔ اِسی دعوتی مشن کا نمونہ آپ نے اپنی امت کو دیا۔ پیغمبراسلام کی پیروی میں آپ کی امت کو بھی اِسی دعوتی نمونے پر قائم رہنا ہے۔ اِس کے سوا جو چیزیں ہیں، وہ سب کی سب ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب 610 ء میں نبوت ملی تو اُس وقت بھی آپ کا مشن دعوت تھا جس کو قرآن میں انذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔ آپ مکہ کے اجتماعات میں جاتے اور لوگوں سے کہتے: أیہا الناس، قولوا لا إلہ إلاّ اللہ، تفلحوا (اے لوگو، لا الٰہ الا اللہ کہو، تم فلاح پاؤگے)۔ 13 سال کے بعد جب مکہ کے حالات سخت ہوگئے تو آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ یہ ہجرت بھی اِسی لیے تھی کہ دعوت کے نئے مواقع کو استعمال کیا جاسکے۔ آپ نے ہجرت سے پہلے اپنے دو نمائندے مدینہ بھیجے، جن کو مُقری کہاجاتا تھا، یعنی قرآن کو سنا کر دعوت کا پیغام دینے والا۔ اِس کے بعد جب آپ خود مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو وہاں بھی آپ نے اپنے پہلے خطاب میں لوگوں سے کہا: اتقوا النار ولو بشق تمرۃ (اے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو)۔
قریش مکہ اُس وقت آپ کے دشمن ہوچکے تھے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے یک طرفہ طورپر جارحانہ اقدام کرکے آپ کو الجھانے کی کوشش کی، لیکن آپ مختلف تدبیروں کے ذریعے ہمیشہ جنگ کو اوائڈ کرتے رہے۔ صرف تین بار مجبورانہ طورپر اصحابِ رسول اور قریش مکہ کے درمیان ٹکراؤ پیش آیا، بد رمیں اور احد میں اور حُنین میں۔ لیکن آپ کی حکمتِ اعراض کی بنا پر تینوں بار صرف آدھے آدھے دن کی لڑائی ہوئی۔ ایسی حالت میں اِن جنگوں کو جنگ کے بجائے جھڑپیں (skirmishes) کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔جنگ سے اعراض کی یہ پالیسی آپ نے اِسی لیے اختیار فرمائی، تاکہ دعوت کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
مخالفین کی جارحیت کے نتیجے میں آپ کی زندگی میں کچھ جنگی واقعات پیش آئے، لیکن اُس وقت بھی آپ کا کنسرن (concern)تمام تر دعوت الی اللہ ہوتا تھا۔ مثلاً ایک جنگی مہم پر روانہ کرتے ہوئے آپ نے علی بن ابی طالب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ کسی ایک انسان کو تمھارے ذریعے سے ہدایت دے دے تو یہ تمھارے لیے اُن تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے (لأن یہدی اللہ علی یَدیک رجلاً، خیرٌ لک مما طلعت علیہ الشمس۔ المستدرک للحاکم، 3/690)۔
اِن جنگی حالات میں بھی محدود طورپر دعوت کا کام جاری تھا، آپ نے چاہا کہ دعوت کا عمل زیادہ کھلے طورپر اور زیادہ وسیع طورپر جاری رہے۔ اِس مقصد کے لیے آپ نے یہ منصوبہ بنایا کہ قریش سے بات چیت کرکے اُن سے امن کا معاہدہ کرلیا جائے۔ چناں چہ حدیبیہ کے مقام پر دونوں گروہوں کے درمیان گفتگو شروع ہوئی۔ یہ گفتگو تقریباً دو ہفتے تک جاری رہی۔ قریش کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ہم معاہدۂ امن کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اِس کے لیے آپ کو یک طرفہ طورپر ہماری شرطوں کو ماننا ہوگا۔ بظاہر یہ نابرابری کا معاہدہ تھا۔ لیکن آپ نے فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان لیا، اِس لیے کہ جنگی حالات ختم ہوجائیں اور دعوت کا عمل کھلے طورپر جاری ہوجائے۔
حدیبیہ کا امن معاہدہ بظاہر پسپائی کا معاہدہ تھا۔ لیکن جب یہ معاہدہ مکمل ہوا تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر 48 اتری جس میں یہ اعلان کیاگیا کہ: إنا فتحنا لک فتحاً مبینا (الفتح:1) یعنی ہم نے تم کو کھلی فتح دے دی۔ بظاہر پسپائی کے ایک واقعے کو قرآن میں فتح کیوں قرار دیا گیا۔ یہ فتح کسی سیاسی معنیٰ میں نہ تھی، وہ صرف اِس معنی میں تھی کہ اِس معاہدے نے دعوت کے تمام بند دروازوں کو کھول دیا۔
جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، اِس کے بعد جو دعوتی عمل کیاگیا، اُس کے نتیجے میں لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوگئے۔ معاہدۂ حدیبیہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف چودہ سو افراد موجود تھے، لیکن دو سال کے اندر جب آپ نے دوبارہ مکہ کی طرف مارچ کیا توآپ کے ساتھیوں کی تعداد دس ہزارہو چکی تھی۔ چناں چہ کسی ٹکراؤ کے بغیر خالص پُرامن انداز میں مکہ میں اسلام کا غلبہ قائم ہوگیا۔ غلبہ کے باوجود آپ نے قدیم مخالفین کے ساتھ کوئی منفی برتاؤ نہیں کیا۔ آپ کے اِس پر امن رویّے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکہ کے تمام لوگ پر امن طورپر اسلام میں داخل ہوگئے۔
مکہ والوں کی طرف سے جب مزاحمت ختم ہوگئی تو آپ نے اس کے بعد کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ آپ نے قدیم مخالفین کو ’’سبق سکھانے کے لیے‘‘ کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ اِس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ عرب کے اطراف میں آباد قبائل کے درمیان خاموشی کے ساتھ توحید کا پیغام پھیلانا شروع کردیا۔ یہ منصوبہ بندی نہایت کامیاب ہوئی۔ قبائل کی طرف سے برابر اُن کے وفود مدینہ آنے لگے۔ آپ نے اِن وفود کے ساتھ نہایت نرمی کا معاملہ فرمایا۔ آپ نے نہایت آسان شرائط کے ساتھ ان سے امن کا معاہدہ کرلیا۔ اِس طرح آپ نے تمام عرب قبائل کو امن کے معاہدات میں شامل کرلیا۔ اِس معاہداتی طریقِ کار کے درمیان پرامن دعوت کا عمل بھی برابر جاری رہا، یہاں تک کہ سارا عرب اسلام کے دائرے میں آگیا۔
اپنی عمر کے آخری حصے میں پیغمبر اسلام ﷺنے حج کا سفر کیا اور حج ادا فرمایا جس کو حجۃ الوداع کہاجاتا ہے۔ اُس وقت آپ کے اصحاب ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں عرفات کے میدان میں موجود تھے۔ آپ نے اُنھیں اپنا آخری پیغام دیا۔ اِس پیغام میں آپ نے نہ جنگ کی کوئی بات کی اور نہ حکومت کی۔ آپ نے اُنھیں پُرامن دعوت کا مشن عطا فرمایا۔ آپ نے کہا کہ اللہ نے مجھے سارے انسانوں کے لیے بھیجا ہے، اِس لیے تم میرے پیغام کو سارے انسانوں تک پہنچا دو (إن اللہ بعثنی کافۃً للناس، فأدّوا عنی)۔
اِس کے بعد آپ کے تمام اصحاب دعوت الی اللہ کی پُرامن اشاعت کے کام میں لگ گئے۔ انھوں نے اُس وقت کی آباد دنیا کے بڑے حصے میں اسلام کے پیغام کو پھیلا دیا۔