غیر دعوتی ذہن کا نقصان

ایک حدیث میں آیا ہے کہ کامل ایمان اُس شخص کا ہے جس کی نفرت اور جس کی محبت صرف خدا کے لیے ہوجائے (سنن أبی داؤد، کتاب السنۃ)۔ غیر دعوتی ذہن کا سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ لوگوں کے لیے نفرت اور محبت کا معیار (criterion)بدل جاتا ہے۔ ایمان کے نام سے وہ خود ایمان ہی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

جس آدمی کے اندر داعیانہ ذہن ہو، وہ اپنے آپ کو داعی کی نظر سے دیکھے گا اوردوسروں کو مدعو کی نظر سے۔ دوسروں سے اس کے تعلق کی بنیاد دعوتی مصلحت ہوگی، نہ کہ کوئی اور مصلحت۔ مثلاً انگریز جب برصغیر ہند میں آئے تو دعوتی ذہن کا تقاضا تھا کہ اُن کو مدعوکی نظر سے دیکھا جائے۔ ایسا کرنے سے مسلمانوں کے اندر خیر خواہی کا ذہن پیدا ہوتا۔ لیکن انھوں نے انگریز کو دشمن کی نظر سے دیکھا، کیوں کہ انھوں نے مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔ اِس بنا پر وہ مسلمانوں کے لیے نفرت کا موضوع بن گئے۔ اُن کا حال یہ ہوگیا کہ جو آدمی انگریزوں سے نفرت کی بات نہ کرے، وہ اُن کی نظر میں دشمن کا ساتھی بن گیا۔ وہ اُس سے بھی اُسی طرح نفرت کرنے لگے جس طرح وہ انگریزسے نفرت کرتے تھے۔

یہی معاملہ عرب دنیا میں پیش آیا۔ بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں جب یہودی تارکین وطن (Jews in diaspora)فلسطین میں آئے تو وہ عربوں کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے تھے۔ اگر عرب اُن کو مدعو کی نظر سے دیکھتے تو ان کے اندر اپنے مدعو کے لیے خیر خواہی کا جذبہ پیداہوتا۔ لیکن اِن عربوں نے یہود کو دشمن کی نظر سے دیکھا، اِس لیے وہ یہود سے نفرت کرنے لگے، اور اِسی کے ساتھ وہ اُس شخص سے بھی نفرت کرنے لگے جو یہود کے بارے میں نفرت کی بولی نہ بولے۔

یہی معاملہ آزادی کے بعد ہندستان میں پیش آیا۔ یہاں ایسا ہوا کہ 1949 میں ہندوؤں نے ایودھیا کی مشہور بابری مسجد کے اندر بت رکھ دیا۔ اِس کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نزاع پیدا ہوئی۔ یہ نزاع بڑھتی رہی، یہاں تک کہ 1992 میں کچھ انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو ڈھا دیا اور اس کی جگہ عارضی مندر بنا دیا۔ اگر مسلمان، ہندوؤں کو اپنا مدعو سمجھتے تو اُن کے اندر منفی رد عمل کی نفسیات نہ پیدا ہوتی۔ لیکن انھوں نے ہندوؤں کو دشمن قرار دے کر اُن سے نفرت کرنا شروع کردیا۔ اب مسلمانوں کا معیار یہ بن گیا کہ جو شخص ہندوؤں کے خلاف نفرت کی بولی نہ بولے، وہ بھی اُسی طرح قابلِ نفرت ہے جس طرح کہ ہندو ان کے نزدیک قابل نفرت بنے ہوئے ہیں۔

موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں جو سب سے بڑی برائی پیدا ہوئی ہے، وہ یہی غیر داعیانہ ذہن ہے۔ اِس غیر داعیانہ ذہن کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ ان کی نفرت اور محبت کا معیار بدل گیا۔ وہ قومی بنیادپر کسی کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔ وہ اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اُس سے نفرت کریں۔ جو شخص اُن کے مفروضہ دشمن سے نفرت نہ کرے، یا نفرت کی بولی نہ بولے، وہ ان کی نظر میں اتنا ہی مبغوض ہوجاتا ہے جتنا کہ ان کا مفروضہ دشمن ان کے لیے مبغوض بنا ہوا ہے۔

موجودہ زمانے کے علماء کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے اِس غیرداعیانہ ذہن کو ختم کرنے کے لیے اپنی ساری کوشش لگا دیں۔ ان کے فتوے، ان کی تقریریں، اُن کی تحریریں، اُن کے پروگرام، ان کی مجالس کی گفتگو، سب کی سب اِسی ایک برائی کی اصلاح پر مرتکز ہوجائیں۔ برائی کی یہی وہ قسم ہے جس کے بعد، قرآن کے الفاظ میں انسان کے اعمال حبط ہوجاتے ہیں۔ بظاہر وہ دینی عمل کرتا ہے، لیکن اس کو خدا کی نصرت حاصل نہیں ہوتی۔

مسلمان کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کا کام کرے۔ دعوت الی اللہ کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ مدعو کی زیادتیوں پر صبر کیا جائے۔ صبر کے بغیر دعوتی کام کی انجام دہی ممکن نہیں۔ قرآن میں داعی کی زبان سے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں: ولنصبرنّ علیٰ ما اٰذیتمونا (إبراہیم: 12) یعنی تمھاری زیادتیوں پر ہم صبر ہی کریں گے۔ ہم صبر کرتے ہوئے اپنا دعوتی کام انجام دیتے رہیں گے، باقی تمھارا جو ظلم وستم ہے، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ ہماری ذمے داری ہے صبر کے ساتھ دعوت الی اللہ کی ذمے داری کو ادا کرنا، یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے عمل کے مطابق، ان کا محاسبہ کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom