حبل اللہ، حبل الناس
قرآن میں یہود کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: ضُربت علیہم الذلۃ أین ما ثُقفوا إلا بحبل من اللہ وحَبْل من الناس (اٰل عمران: 112) یعنی یہود پر ذلت مسلط کر دی گئی، خواہ وہ کہیں بھی پائے جائیں، سوا اِس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی عہد ہو، یا لوگوں کی طرف سے کوئی عہد۔
قرآن کی اِس آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں ہے اورنہ اُس کا تعلق صرف یہود سے ہے۔ اُس کا تعلق مسلمانوں سے بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ یہود سے۔ اِس آیت میں دراصل یہود کے حوالے سے فطرت کے ایک قانون کو بیان کیا گیا ہے۔وہ قانون یہ ہے کہ کسی اہلِ کتاب گروہ کے اندر اگر صحیح اسپرٹ زندہ ہو تو وہ خدا کی کتاب سے اپنی زندگی کے لیے رہنمائی حاصل کرے گا۔ اور اگر اس کے اندر صحیح اسپرٹ باقی نہ رہے، تو وہ انسان کے قائم کیے ہوئے نظام میں اپنے معاملات کا حل تلاش کرے گا۔
یہ بات موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ آج کل ہندستان کے ہر شہر میں مسلمانوں کے جلسے ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کے رہنما اخباری بیانات دے رہے ہیں۔ اِن جلسوں اور تقریروں میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہم کو جمہوری حقوق سے محروم کردیا گیا۔ دستور کے مطابق، شہریوں کے لیے جو جمہوری حقوق ہیں، وہ ہم کو دیے جائیں۔ یہ ’’حبلُ الناس‘‘ کے ذریعے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے۔ اگر اِن لوگوں کے اندر صحیح اسپرٹ زندہ ہوتی تو وہ مسلمانوں کو قرآن کی آیت (المائدۃ:67) یاد دلاتے۔ وہ کہتے کہ قرآن کے مطابق، تمھارے لیے عزت اور تحفظ کی زندگی حاصل کرنے کا راز یہ ہے کہ تم خدا کی نازل کی ہوئی سچائی کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ کیوں کہ قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’عصمت من الناس‘‘ کا راز ’’تبلیغ ما انزل اللہ‘‘ میں بتایا گیا ہے۔
خدا کے نزدیک محبوب قوم وہ ہے جو خدا کی کتاب کو اپنی زندگی کے لیے رہنما بنائے، اور خداکے نزدیک مبغوض قوم وہ ہے جو خدا کی کتاب کے علاوہ اپنے لیے رہنمائی تلاش کرنے لگے۔