ایمانی انفجار
ایک مومن وہ ہے جو رُٹین کی دین داری سے بنتا ہے۔ یہ وہ مومن ہے جس نے کلمہ پڑھا ہو، جو مقرر عبادتیں کرے، جو اخلاق ا ور معاملات میں شریعت کا پابند ہو،جو مومنانہ وضع قطع اختیار کرے۔ اِس قسم کی دین داری رٹین کی دین داری ہے۔ یہ دین داری بھی بلاشبہہ مطلوب ہے، لیکن اِس قسم کی دین داری سے وہ مومن نہیں بنتا جس کو اعلیٰ مومن کہاجاتا ہے۔ اعلیٰ مومن کیسے بنتا ہے، اس کو اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز (وفات: 101 ھ) کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ عمر بن عبد العزیز 93 ہجری میں مدینہ کے گورنر تھے۔ اُس وقت وہاں ایک تابعی رہتے تھے جن کا نام خُبیب بن عبداللہ بن الزبیر تھا۔ دمشق کے اموی حکم راں الولید بن عبد الملک کو اُن سے شکایت ہوگئی۔ الولید نے عمر بن عبدالعزیز کو یہ حکم بھیجا کہ خبیب کو سوکوڑے مارو اور سردی کے موسم میں اُن کے سرپر ٹھنڈا پانی گراؤ۔ عمر بن عبد العزیز نے ایسا ہی کیا۔ اِس کے بعد خبیب کی وفات ہوگئی۔ اِس واقعے نے عمر بن عبد العزیز کو اتنا زیادہ تڑپایا کہ ان کی زندگی میں انقلاب آگیا۔ اُن کا حال یہ ہوگیا کہ اگر اُن کو ان کے کسی کارِ خیر پر آخرت کے انعام کی بشارت دی جاتی تو وہ کہہ اٹھتے کہ ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے، جب کہ خبیب میرے راستے میں ہیں (کیف وخُبیب لی بالطریق)
یہ انقلابی واقعہ کیسے پیش آیا، اِس کو برین اسٹارمنگ (brainstorming) کے نظریے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ آدمی کو جب کوئی سخت جھٹکا لگتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک بھونچال آجاتا ہے۔ اس کے دماغ کے تمام امکانات جاگ اٹھتے ہیں۔ پہلے اگر وہ انسان تھا تو اب وہ سُپر انسان بن جاتا ہے۔ اُس کے اندر انتہائی شدید قسم کا محاسبہ (introspection) جاگ اٹھتاہے۔ اس کا خوفِ خدا اپنی آخری حد تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ ذہنی بھونچال اس کے ایمان کو بڑھاتاہے۔ اِس کے بعد اس کے اندر وہ بے قراری پیدا ہوتی ہے جو اس کو ایمانی ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچا دیتی ہے۔ وہ خدا سے قربت کا اعلیٰ تجربہ کرتاہے۔ وہ تقویٰ کے بلند ترین مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ رٹین کی دین داری سے کسی آدمی کے اندر ایمانی انفجار پیدا نہیں ہوتا، اِس لیے رٹین کی دین داری سے کسی کو اعلیٰ ایمان کا تجربہ بھی نہیں ہوتا۔