سوال جواب
سوال
آدمی خشوع خضوع کے ساتھ جب اللہ سے دعا کرتا ہے تو یہ کیفیات صرف کچھ وقت کے لئے طاری ہوتی ہیں۔ کیا اِس کے علاوہ عام حالت میں آدمی دیگر مسنون دعاؤں کوپڑھ سکتا ہے۔ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں (محبوب خان، جے پور، راجستھان)
جواب
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جو دعائیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، وہ بلاشبہہ نہایت قیمتی ہیں۔ وہ اِس قابل ہیں کہ اُن کو اپنے ذکر ودعاء میں شامل کیا جائے۔ لیکن اِن دعاؤں کو اُسی طرح کرنا ہے، جس طرح اُن کو خود پیغمبر اسلام نے کیا تھا، نہ کہ کسی اور طریقے سے۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مسنون دعائیں اپنے الفاظ کے اعتبار سے پُراسرار طورپر مؤثر ہیں۔ اِن الفاظ کو صحتِ تلفظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کرنا ہی مسنون انداز میں دعاء کرنا ہے۔ مگر ایسا خیال درست نہیں۔ پیغمبر اسلام کا معاملہ یہ نہیں تھا کہ آپ نے آج کل کے مسلمانوں کی طرح اِن دعائیہ الفاظ کو یاد کرلیا تھا اور اُن کو محض لفظی طور پر دہراتے رہتے تھے۔ اِس کے برعکس، آپ کی دعاء یہ تھی کہ آپ کے دل میں کچھ ربانی احساسات طاری ہوئے۔ آپ نے جب اِن احساسات کو ظاہر کرنا چاہا تو وہ دعائیہ الفاظ کی صورت میں ڈھل گئے۔ یہی آج بھی ہونا چاہیے۔ آج بھی مسنون دعاء یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کی یاد سے کچھ اعلیٰ کیفیات پیدا ہوں، اور وہ اپنی اِن کیفیات کو مسنون دعاء کی صورت میں اپنی زبان سے ادا کرے۔مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺکے لیے عربی زبان اُن کی مادری زبان تھی۔ اِس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آپ کی دعائیں اصلاً مادری زبان میں نکلی ہوئی دعائیں ہیں، نہ کہ سادہ طورپر صرف عربی زبان میں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ کیفیات ہمیشہ اپنی مادری زبان میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اِس لیے اگر کسی شخص پر اعلیٰ ربانی کیفیات طاری ہوں اور وہ اپنی مادری زبان میں اُسی قسم کے احساسات کا اظہار کرے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہوئے تھے، اگر کوئی شخص اِس طرح اپنی مادری زبان میں دعاء کرے تو وہ بھی اپنی حقیقت کے اعتبار سے مسنون دعاء کے زمرے میں شمار ہوگی۔
سوال
راقم آج کل ’’تذکیر القرآن‘‘ کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہے۔الرسالہ کو پڑھ کر مختصراً یہ محسوس ہوا کہ آپ ایک انسان کو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے معاملات میں ہر صورت میں خود ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور ہر مسئلے کوافہام و تفہیم سے حل کرنے کا درس دیتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب کہ فریقین باہمی رضامندی سے مسئلہ فساد کو مٹانے کی نیت رکھتے ہوں اور زور آور کم زورکی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ (سید غلام احمد بخاری، بیروہ، کشمیر)
جواب
میں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ میں نے اپنے ذاتی خیال کے طورپر نہیں لکھا ہے، بلکہ خدا کے مقرر کردہ قانونِ فطرت کے حوالے سے لکھا ہے۔ ہم جس دنیا میں ہیں، اُس دنیا کو خدا نے بنایا ہے۔ یہ خود خدا ہے جس نے اِس دنیا کے لیے قوانین مقرر کیے ہیں۔ ہمارے لیے کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم خدا کے قانون کو دریافت کریں اور اُس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔
قرآن کا مطالعہ کیجئے تو قرآن سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ کوئی اجتماعی مسئلہ پیش آئے تو آدمی کو سب سے پہلے خود اپنی غلطی کو دریافت کرنا چاہئے۔ اپنی غلطی کو دریافت کرکے اس کی اصلاح کرنا، یہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ تمھارے اوپر جو مصیبت بھی آتی ہے، وہ صرف تمھارے اپنے کیے کا نتیجہ ہوتی ہے (الشوریٰ: 30)۔ دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اگر تم صبرکرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو تو دوسروں کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی (آل عمران:120)۔
اِس قسم کی آیتوں اور حدیثوں پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ شکایت اور احتجاج کا ذہن سرتاسر ایک غیر فطری ذہن ہے۔ شکایت اور احتجاج پر مبنی تحریکوں سے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔ کیوں کہ ایسی تحریکیں خدا کے نقشے کے خلاف ہیں۔ ہمارے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی روش پر نظر ثانی کریں۔ داخلی محنت اور پُرامن تدبیر کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے سوا جو طریقہ ہے، وہ صرف ایک خود ساختہ طریقہ ہے، اور ایسے خود ساختہ طریقوں سے خدا کی مدد ملنے والی نہیں۔