قرآن کی ایک آیت

قرآن کی سورہ نمبر 3 میں اہلِ جنت کے تذکرے کے تحت ارشاد ہوا ہے: فالّذین ہاجروا وأخرجوا من دیارہم وأوذوا فی سبیلی وقاتلوا وقُتلوا لأکفرنّ عنہم سیّآتہم ولأدخلنہم جنّٰت تجری من تحتہا الأنہار، ثواباً من عند اللّٰہ، واللّٰہ عندہ حسنُ الثواب (آل عمران: 195) یعنیجن لوگوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور وہ لڑے اور مارے گئے، میں ضرور اُن کی خطائیں اُن سے دور کردوں گا، اور اُن کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اُن کا بدلہ ہے اللہ کے یہاں، اور بہترین بدلہ اللہ ہی کے پاس ہے۔

اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ ماضی کے صیغے میں ہے، وہ مستقبل کے صیغے میں نہیں ہے، یعنی اِس کامطلب یہ نہیں ہے کہ آئندہ قیامت تک جنت میں جانے والے صرف وہ لوگ ہوں گے جو ہجرت کریں، جو اپنے وطن سے نکالے جائیں، جن کو ستایا جائے، جو لڑیں اور مارے جائیں۔ یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر اہلِ ایمان کی سرگزشت ہے، وہ ہر دور کے اہلِ ایمان کا معاملہ نہیں۔ اِس آیت میں معاصر اہلِ ایمان کی صفات بتائی گئی ہیں، نہ کہ مطلق معنوں میں ہر دور کے اہلِ ایمان کی صفات۔

اصل یہ ہے کہ اسلام میں جن عقائد کی تعلیم دی گئی ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہیں۔ لیکن ہجرت اور اخراجِ وطن اور ایذا رسانی اور قتال جیسی چیزیں عملی نوعیت کی چیزوں کا کوئی ابدی نقشہ نہیں ہوتا۔ مثلاً موجودہ زمانے میں جب کہ حالات بدل چکے ہیں، اہلِ ایمان کے ساتھ ہر قسم کے واقعات پیش آئیں گے، لیکن عملی اعتبار سے اُن کی شکلیں مختلف ہوں گی۔ آیت میں جن چیزوں کا ذکر ہے، آئندہ بھی اہلِ ایمان کی زندگی میں اُن کا اعادہ ہوتا رہے گا، تاہم یہ اعادہ معناً ہوگا، نہ کہ شکلاً۔اِس قسم کی آیتیں حالات کے اعتبار سے دوبارہ منطبق (apply) ہوتی رہیں گی۔ اُن کی ابدیت انطباق کے اعتبار سے ہے، نہ کہ ظاہری الفاظ کے اعتبار سے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom