زیادہ صحیح اصول
ٹیپو سلطان ۸۲ ۱۷ سے لے کر ۱۷۹۹ تک ریاست میسور کے حکمراں تھے۔ اسی زمانے میں انگریز ہندستان پر قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ چنانچہ ٹیپو سلطان کا مقابلہ انگریزوں سے پیش آیا ۔ ٹیپو سلطان تنہا اس پوزیشن میں نہ تھے کہ وہ انگریز کی جدید فوجوں کا مقابلہ کر سکیں ۔ انھوں نے کوشش کی کہ فرانس کو ایک انگریز مخالف معاہدہ میں شریک کریں ، مگر فرانس راضی نہ ہو سکا ۔ اس کے بعد انھوں نے عرب ، کابل ،قسطنطنیہ ، ماریشس کی حکومتوں کے پاس اپنے وفود بھیجے تا کہ ان سے انگریز کے مقابلے میں فوجی تعاون حاصل کریں ، مگر اس میں بھی انھیں کامیابی نہیں ہوئی ۔ اسی طرح انھوں نے ہندستان کی اس وقت کی ریاستوں کو انگریز مخالف مہم میں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ، مگر ریاستوں نے اس کو خودکشی کے ہم معنی سمجھا۔ چنانچہ کوئی ریاست اس کے لیے تیار نہ ہوسکی ۔
آخر کار ٹیپوسلطان تنہا انگریزوں سے لڑ گئے ۔ نتیجہ پہلے سے معلوم تھا۔۴ مئی ۱۷۹۹ کو سرنگاپٹم میں انگریز کی گولی نے ان کا خاتمہ کر دیا۔ ٹیپو کی یہ جنگ یقینی طور پر بے فائدہ تھی۔ تاہم ٹیپو سلطان نےیہ کہہ کر اس کو صحیح قرار دیا کہ : شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسال کی زندگی سے بہتر ہے۔
ٹیپو سلطان کا یہ جملہ مسلم شاعروں اور خطیبوں کو بہت پسند ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جملہ میں بہادری ضرور ہے ۔ لیکن اس میں بصیرت اور دانش مندی نہیں ۔ اگر یہ کوئی مطلق طور پر اعلیٰ اصول ہو تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب (مہا جرین )کو مکہ میں شیر کی طرح لڑ کر شہید ہوجاناچاہیے تھا ، نہ کہ وہ ایک ایسا طرز عمل اختیار کریں جس نے اغیار کو یہ موقع دیا کہ وہ اس کو "فرار"سے تعبیر کرنے لگیں ۔
اس کے برعکس مثال حیدر آباد کے نظام علی خاں کی ہے ۔ حالات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے ۱۷۶۸ میں انگریزوں سے صلح کا معاہدہ کر لیا ۔ ان کی ریاست بدستور قائم رہی۔ اس طرح ریاست حیدر آباد کو موقع ملا کہ وہ ۷۶۸ اسے لے کر ۱۹۵۶ تک مسلمانوں اور اسلامی اداروں کی غیر معمولی خدمت کر سکے۔ ٹیپو سلطان کے مذکورہ قول کے مقابلے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ایک دن کے لیے "گیدڑ "بن جانا آدمی کو اس قابل بنا تا ہے کہ وہ سو سال تک" شیر" بن کر رہ سکے ۔